امریکی شاعرہ جوائے ہارجو: ‘ایک ایسی نظم بھی ہے جو آپ کی زندگی بدل سکتی ہے’

سٹیج پر کھڑی جوائے ہارجو تقریر کر رہی ہیں (© Valerie Macon/AFP/Getty Images)
جوائے ہارجو 27 اکتوبر 2019 کو کیلی فورنیا میں منعقد ہونے والے موشن پکچر آرٹس اور سائنسز کی اکیڈمی کی میزبانی میں منعقد ہونے والی گورنر ایوارڈز کی تقریب میں تقریر کر رہی ہیں۔ (© Valerie Macon/AFP/Getty Images)

وبا اور نسلی کھنچاؤ کے دور کے بعد، امریکی ملکہ الشعرا جوائے ہارجو کو شاعری میں سکون ملتا ہے  اور اس میں زندگی کے اسباق نظر آتے ہیں۔

کانگریس لائبریری میں ملکہ الشعرا کی حیثیت سے اپنی تیسری مدت میں خدمات انجام دینے والیں، ہارجو نے ایک انٹرویو میں کہا، “وہ لمحات جو سب سے زیادہ خوفناک ہوتے ہیں، وہ بااختیار بناتے ہیں، وہ دکھ سے بھرے ہوتے ہیں، وہ خوشی سے بھرے ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ شاعری کو اپنے جلو میں لیے ہوتے ہیں۔ ہمیشہ کہیں نہ کہیں ایسی شاعری ہوتی ہے جو آپ کی زندگی کو بدل سکتی ہے۔”

مسکوگی کریک قبیلے سے تعلق رکھنے والی ہارجو، ملک کی سرکاری شاعرہ کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی پہلی آبائی امریکی فرد ہیں۔

ہارجو کی تقرری کرتے ہوئے کانگریس لائبریری کی لائبریرین کارلا ہیڈن نے کہا، “اُن کے نزدیک، نظمیں ‘خواب، علم اور دانش لیے ہوئے ہوتی ہیں،’ اور اُن کے ذریعے وہ امریکہ کی روایات اور نقصان، سزا جزا اور اساطیر سازی کی کہانیاں سناتی ہیں۔”

ہارجو اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بعض مقامی ثقافتوں میں، شاعروں کو شفا دینے والوں کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ آبائی امریکیوں کی ثقافت کوطویل عرصے تک نظرانداز کیے جانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مایوسیوں سے نمٹنے میں، شاعری ہارجو کی مدد کرتی ہے۔ انہوں نے ایک قومی کتابی میلے کے دوران امریکہ میں نسل کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا، “میرے نزدیک، جب آپ کے پاس الفاظ نہ ہوں، تو شاعری بات کرنے کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔”

اپنے ورثے پر فخر کرنے والی، ہارجو نے بتایا کہ انہوں نے نے آبائی امریکیوں کے حقوق کی حمایت میں اپنے کام کے ایک حصے کے طور پر شاعری کا آغاز کیا۔

 جوائے ہارجو شہنائی پکڑے کھڑی ہیں (© Paul Abdoo/MPI/Getty Images)
آبائی امریکی موسیقار اور شاعرہ جوائے ہارجو کی 1990 کے لگ بھگ کی ایک تصویر۔ (© Paul Abdoo/MPI/Getty Images)

ان کے لیے یہ اہم ہے کہ لوگ جانیں کہ آبائی امریکی ختم نہیں ہوئے بلکہ وہ اب بھی امریکی ثقافت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ ملکہ الشعرا کی حثیت سے اُن کے اہم پراجیکٹوں میں شمار ہونے والے ایک پراجیکٹ کا عنوان “زندہ قومیں، زندہ الفاظ” ہے۔ یہ باہمی تعامل کا ایک نقشہ ہے جس کے ذریعے قارئین نقشے پر کسی جگہ کے نام پر کلِک کرکے اُس علاقے کے آبائی امریکی شعرا کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ (آپ ہارجو کو ٹلسا، اوکلاہوما میں تلاش کر سکتے ہیں۔ اُن کے علاوہ درجنوں بھر دیگر شعرا بھی اس نقشے میں شامل ہیں۔)

اس برس 71 برس کی ہونے والی، ہارجو کہتی ہیں، “ہم یہاں موجود ہیں۔ ہم شاعر ہیں، ہم جاز موسیقار ہیں، ہم اساتذہ ہیں۔ ہم انسان ہیں۔ ہارجو بذات خود محض ایک شاعرہ ہی نہیں بلکہ ایک موسیقارہ ہیں، یاد داشتیں لکھنے والی ہیں اور بڑے فخر سے بتاتی ہیں کہ وہ نواسوں پوتوں والی ہیں۔

وہ اپنی تحریروں اور اپنی موسیقی پر ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔ وہ سیکسوفون بجاتی ہیں اور گانے گاتی ہیں اور ‘ایرو ڈائنیمکس’ نامی بینڈ کی رکن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ موسیقی کی طرح دنیا کی زیادہ تر شاعری زبانی روایات کا  حصہ ہے۔

ہارجو شاعری کے اپنے شوق میں دوسروں کو بھی شامل کرتی ہیں۔ “شاعری کا تعلق ہر ایک سے ہے۔ اس کا تعلق یونیورسٹی کی کسی الماری میں پڑی ہوئی کسی چیز سے نہیں ہے۔”

کتابی میلے کی تقریب میں  ہارجو نے فیروزی رنگ کے زیورات اور گہرے سیاہ بالوں کے نیچے چھپے کانوں میں غیرمعمولی طور پر لمبے جھمکے پہنے ہوئے تھے۔ اس تقریب میں انہوں نے “یادوں کی جلاوطنی” کے عنوان  سے لکھی گئی اپنی نظم پڑھی جس کا تعلق جنوب مغرب میں واقع مسکوگی قبیلے کے اُن علاقوں میں جانے سے ہے جہاں کسی زمانے میں اُن کے گھر ہوا کرتے تھے۔ مسکوگی قبیلے کو یہاں سے نکل کر اوکلاہوما جانے پر مجبور کیا گیا تھا۔

“کیا آپ جانتے ہیں کہ انسانی یادوں میں

 پُر امن راہ کیسے نکالی جاتی ہے؟

اور ہاں تاریخ کے منفی کرداروں کے بارے میں کیا خیال ہے؟

 لورا کولٹیلی کی کتاب Winged Words: American Indian Writers Speak (پروں والے الفاظ: آبائی امریکی مصنفین کی آواز) میں چپھنے والے ہارجو کے کولٹیلی کو دیئے گئے انٹرویو میں ہارجو کہتی ہیں، “میں ایک جذباتی نقطے سے شروع کرتی ہوں یعنی ایک جگہ سے، اور پھر وہاں سے آگے بڑھتی ہوں،  … میں اب نظم کو اختتامی نقطہ نہیں سمجھتی، بلکہ اس سے زیادہ ایک سفر کا اختتام سمجھتی ہوں، ایک ایسا لمبا سفر جو [آپ یوں] کہیے کہ کسی کی گال پر پڑنے والی دھوپ کی خفیف سی یاد کے ساتھ، ایک خاص قسم کی خوشبو، ایک درد  کے ساتھ برسوں پہلے شروع ہو سکتا ہے۔ اور پھر برسوں بعد یہ ایک نظم کا روپ دھارسکتا ہے۔ [ایک ایسی نظم جو]  کسی جگہ کے بارے میں ایک خاص سوچ سے چھن کر نکلی ہو، [یہ سوچ] میرے دل میں بسی ایک ایسی جھیل بھی ہو سکتی ہے جس میں سے بہرصورت ہر ایک لفظ کو نکلنا ہوتا ہے۔”

 

ابتدا میں یہ مضمون 18 مارچ 2021 کو شائع کیا گیا۔