امریکی شمشیرباز ابتہاج محمد جب ریو ڈی جنیرو کے اولمپکس میں اپنے حجاب کے اوپر شمشیرزنی کے بیضوی شکل کا نقاب پہنیں گی، تو وہ اپنے ملک کی نمائندگی کریں گی اور ایک اہم نکتے کی نشاندہی بھی کریں گی۔
وہ کہتی ہیں، ’’مجھے وہ لمحات یاد ہیں جب ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے مجھ سے کہا کہ میرا اس کھیل سے کوئی تعلق نہیں اس لیے کہ میں سیاہ فام ہوں، یا اس لیے کہ میں مسلمان ہوں۔‘‘
شمشیر زنی میں کھلاڑی ایک دوسرے کے خلاف کُند تلواریں استعمال کرتے ہوئے مدمقابل کھلاڑی کی کمر سے اوپر وار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 30 سالہ محمد بتاتی ہیں کہ شمشیرزنی کے اس کھیل میں استعمال ہونے والے تین ہتھیاروں میں،’’نیزہ نما تلوارآپ کا تیزترین متحرک ہتھیار ہوتا ہے۔ یہ ’زورو‘ [کے استعمال کردہ ہتھیاروں] سے بہت زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔‘‘ یہ اشارہ اُس نقاب پوش افسانوی ہیرو کی جانب ہے جو تلوار کے ساتھ نا انصافیوں کے خلاف لڑتا تھا۔
میپل وُڈ، نیو جرسی میں پیدا ہونے والی محمد، ہمیشہ سے لوگوں کے تصورات کو چیلنج کرتی چلی آ رہی ہیں۔
جب وہ ثانوی سکول میں تھیں تو انہوں نے چھ بار اولمپک مقابلوں میں حصہ لینے والے پیٹر ویسٹ بروک کے جِم [ورزشگاہ] میں داخلہ لیا۔ پیٹر ویسٹ بروک نے اندرونِ شہر نیویارک کے بچوں کی تربیت کے لیے ایک فاؤنڈیشن قائم کی۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب میں فاؤنڈیشن میں گئی تو میں نے نہ صرف ان لوگوں کو دیکھا جو مجھ جیسے ہی دکھائی دیتے تھے، بلکہ میں نے کمرے میں اولمپکس کے کھلاڑیوں کو بھی دیکھا۔‘‘
پیٹر ویسٹ بروک فاؤنڈیشن میں کوچز کے ساتھ تربیت حاصل کرنے سے ان میں اعتماد پیدا ہوا۔ محمد نے یونیورسٹی کی سطح پر خود کو چوٹی کی شمشیرباز کے طور پر منوایا، لیکن جب وہ اولمپکس کے لیے عورتوں کی شمشیر زنی کی ٹیم میں شمولیت کے بارے میں سوچ رہی تھیں تو انہیں وہاں تنوع کا فقدان دکھائی دیا۔ محمد نے اس صورت حال کو اپنے لیے ایک ترغیب میں بدل دیا۔ انہوں نے کہا، ’’آپ کو پتہ ہے میں نے کیا سوچا؟ میں نے سوچا، میں اس ٹیم میں اس لیے جانا چاہتی ہوں کیونکہ میں اس ٹیم کو بدلنا چاہتی ہوں۔ ‘‘
2012ء میں وہ ہاتھ کے جوڑ میں تکلیف کی وجہ سے لندن اولمپکس کے لیے منتخب نہ ہو سکیں۔ لیکن امسال، ایتھنز میں “انٹر نیشنل فینسنگ فیڈریشن” کے ورلڈ کپ کے مقابلوں میں ایک تمغے کے حصول نے ان کے لیے ریو کے اُس اولمپک مقابلے میں شرکت کے دروازے کھول دیئے، جہاں وہ حجاب کے ساتھ مقابلے میں حصہ لینے والی پہلی امریکی ایتھلیٹ ہوں گی۔
محمد جب 13 برس کی تھیں تو انہوں نے اپنی ماں کے مشورے پر شمشیر زنی کے کھیل میں حصہ لینا شروع کیا۔ اس کھیل میں انہیں اپنی یونیفارم کو تبدیل نہیں کرنا پڑتا تھا۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جس کے باعث وہ دوسرے کھیل کھیلتے ہوئے اپنے بارے میں ہمیشہ حساس ہوجاتی تھیں۔.
Practice during Ramadan be like.. pic.twitter.com/N4KVuz9A1G
— Ibtihaj Muhammad (@IbtihajMuhammad) June 11, 2016
محمد نے کہا کہ 2012ء میں انہیں جو نا امیدی ہوئی اس کے بعد بھی وہ حالات کو ان کے درست تناظر میں دیکھتی رہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں جو ہوں اس کا ایک بہت بڑا حصہ میرا ایمان ہے۔ اور اس نے مجھے اپنے قدموں پر قائم رہنے میں میری مدد کی ہے۔‘‘
ان کے مداحوں میں بعض مشہور ومعروف لوگ بھی شامل ہیں۔ بالٹی مور کی ایک مسجد کے دورے کے دوران صدر اوباما نے انہیں پہچان لیا اور ان سے کہا کہ ’’سونے کے تمغے کے ساتھ وطن واپس آنا۔‘‘ تاہم [ان پر] کوئی دباؤ نہیں ہے!
گزشتہ اپریل کے مہینے میں نیو یارک کے ایک دورے کے دوران، خاتون اوّل مشیل اوباما نے ایک سہہ پہر کے لیے شمشیرزنی میں ان کی شاگردی اختیار کی۔
Anything is possible with hard work and perseverance #MotivationMonday pic.twitter.com/H1Y1HwKtUb
— Ibtihaj Muhammad (@IbtihajMuhammad) May 23, 2016
دنیا بھر میں مزید مسلمان عورتیں اولمپکس کے مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ ابو ظہبی میں کھیلوں کی فاطمہ بنت مبارک اکیڈمی برائے خواتین کی فاطمہ عدوان کا کہنا ہے کہ یہ رجحان جڑ پکڑ رہا ہے ۔ ان کا کہنا ہے، ’’ہم یہ بتانا چاہتی ہیں کہ کھیلوں میں حصہ لینے کے لیے آپ کو اپنی ثقافت کی خلاف ورزی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔‘‘
ابتہاج محمد اب پیٹر ویسٹ بروک فاؤنڈیشن میں تربیت دیتی ہیں جہاں وہ بچوں میں اپنائیت کا وہی احساس پیدا کرنے کی امید رکھتی ہیں، جس کا تجربہ انہیں “فینسنگ جِم” میں پہلے روز ہوا تھا۔
انہوں نے کہا، ’’میں دنیا بھر کے نوجوانوں کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ وہ دوسرے لوگوں کے غلط تصورات کو آپ کی نسل، آپ کی صنف، آپ کی لسانیت کی تعریف متعین کرنے اور اپنی زندگی کے طور طریقوں کو آپ پر مسلط کرنے کی اجازت نہ دیں۔ وہ ایسا ہر کام کرسکتے ہیں جس کا سودا ایک بار ان کے سر میں سماجائے۔ ‘‘
آپ ٹوئیٹر پر @IbtihajMuhammad پر جا کر ابتہاج محمد کے بارے میں مزید جان سکتے ہیں اور 6 سے 14 اگست تک اولمپکس میں ان کو شمشیر زنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں ۔.