امریکی عجائب گھر وں میں مختلف مذاہب سے متعلق آرٹ کی نمائش

ہزاروں سال سے دنیا کے بعض مشہور ترین فنی نمونے مذہبی سوچ سے متاثر ہوکر تخلیق کیے جاتے رہے ہیں۔ امریکہ کے تین مشہور عجائب گھر تین مختلف مذاہب سے متعلق فنی نمونوں کی نمائش کے ذریعے عقائد اور فن میں روابط کو اجاگر کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں دو نمائشیں اس امر کا اظہار کرتی ہیں کہ مختلف زمانوں میں مذہبی ضرورتوں نے تخلیقیت کی صورت گری کیسے کی ہے۔ ان میں ایک نمائش کا عنوان ‘بدھا کے مقابل’ ایشیا میں فن اور مذہب’ (یہ نمائش واشنگٹن کے سمتھسونین انسٹیٹیوٹ کی سیکلر گیلری میں منعقد کی گئی ہے) جبکہ دوسری نمائش کا عنوان ‘ عالیشان فن پاروںابتدائی عیسائی فن کے خزانے‘ ہے (یہ نمائش اوہائیو کے ٹولیڈو میوزم آف آرٹ میں منعقد کی گئی ہے)۔ اِن کے علاوہ ایک تیسری نمائش ڈیلاس کے آرٹ میوزیم کی  اسلامی آرٹ کے مجموعے کی نئی کھولی گئی ” کیر ”  گیلری میں کی گئی ہے۔

‘بدھا کے مقابل’ میں تبت کے ایک بدھ مندر کا اندرونی منظر تخلیق کیا گیا ہے جہاں مجسمے، لپٹے کاغذ پر تحریریں اور ٹمٹماتے ہوئے  چراغ دکھائے گئے ہیں۔ نمائش دیکھنے کے لیے آنے والے لوگ بدھ دنیا میں اہم چیزوں کے مفہموں اور ان کے رسوماتی استعمال کے بارے میں جانتے ہیں اور سری لنکا میں واقع روان ویلیسایا سٹوپا (مقدس یادگار) کے حوالے سے ایک فلم بھی دیکھ سکتے ہیں جس میں دسمبر میں پورے چاند کے میلے میں راہبوں، راہباؤں اور عبادت گزاروں کی روزمرہ مذہبی رسومات پیش کی گئی ہیں۔

Room with figurines, wooden furniture with multicolored inlay, rugs and other artwork (© John Bigelow Taylor/Smithsonian Institution)
سیکلر گیلری میں بنائی گئی تبت کی بدھ عبادت گاہ کے کمرے میں 13ویں سے 20ویں صدی کے تبتی، چینی اور منگولین فنی نمونے۔ (© John Bigelow Taylor/Smithsonian Institution)

ڈیلاس میں13 صدیوں کے عرصے پر محیط مشرق وسطیٰ، ایشیا اور یورپ میں بنائے جانے والے قریباً 2000 فنی نمونوں پر مشتمل کیر کے مجموعے سے اسلامی فن کے 100 سے زیادہ نمونے نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ان میں فاطمی دور کا منقش بلوریں جگ بھی ہے جو 2008 میں ایک نیلامی سے 43 لاکھ  ڈالر میں خریدا گیا تھا۔ ان فن پاروں میں نایاب ظروف، ریشمی ملبوسات اور رنگوں سے مزین تحریریں بھی شامل ہیں۔

At left, circular multicolored patterns; at right, pairs of figures against floral background (The Keir Collection of Islamic Art/Dallas Museum of Art)
بائیں: 1605 سے 1610 کے ترکی کا تزئین شدہ مسودہ، دائیں: 17 ویں صدی کا، ایران سے کپڑے کا ٹکڑا۔ (The Keir Collection of Islamic Art/Dallas Museum of Art)
Carved crystal pitcher on left and inscribed, multisectional cylinder with handle on right (The Keir Collection of Islamic Art/Dallas Museum of Art)
بائیں: 10ویں صدی کے اواخر اور 11ویں صدی کے اوائل میں مصر میں فاطمی دور کا سنہری ابھار والا بلوریں جگ۔ دائیں: 1483 میں بنا پیتل کا تالا۔ (The Keir Collection of Islamic Art/Dallas Museum of Art)

ٹولیڈو میوزیم آف آرٹ میں منعقدہ ‘ عالیشان فن پاروں‘ کی نمائش میں 200 سے 700 ویں صدی کے فن پارے رکھے گئے ہیں جب رومن سلطنت ملحدانہ معاشرے سے عیسائی معاشرے میں تبدیل ہو رہی تھی۔ اواخر قدیم دور کے رومن فنکاروں کے تیار کردہ زیورات اور امیر عیسائیوں کی پرتعیش اشیا نیز اس دور میں تشکیل پانے اور آج بھی استعمال ہونے والی ان فنکاروں کی تکنیک، اس ہنگامہ خیز تبدیلی کے دوران فنی سفر کے تسلسل کی غمازی کرتی ہے۔

Bejeweled bracelet and earrings (© Bruce M. White/Toledo Museum of Art)
بائیں: چھٹی صدی کے بازنطینی دور کا نگینوں اور موتیوں سے جڑا طلائی کنگن۔ دائیں: پہلی صدی عیسوی کے یونان میں بنی منقش یاقوت جڑی کانوں کی بالیاں۔ (© Bruce M. White/Toledo Museum of Art)

عالیشان فن پاروں ‘ میں عیسائیت سے متعلق تصویرکشی صراحت کے ساتھ دکھائی دیتی ہے جیسا کہ سونے کی صلیبیں اور چاندی کی ایک پلیٹ جس میں عیسائی حواریوں کی قدیم ترین شبیہ موجود ہے جس کا تعلق 547 سے 550 عیسوی سے ہے) نمائش میں عیسائیت کے ابتدائی پیروکاروں کے نگینے جڑے کنگن اور کانوں کی بالیاں بھی شامل ہیں جو اس زمانے میں چرچ اور اس کے پیروکاروں کی بڑھتی ہوئی طاقت کا پتہ دیتے ہیں۔

نمائش میں شہنشاہ سیپٹیموس سییویرس اور اس کی بیوی ملکہ جولیا ڈومنا کے عتیق سلیمانی پر کندہ کیے مجسمے بھی اس طاقت کا اظہار ہیں۔ یہ شہنشاہ پوپ وکٹر اول کا اتحادی تھا۔

Pendant and bust (© Bruce M. White/Toledo Museum of Art)
بائیں: 207 سے 211 عیسوی کے روم میں بنے سیپٹیموس سیویرس اور جولیا ڈومنا کے منقش مجسمے۔ دائیں: 161 سے 180 عیسوی کے روم میں بنا ہیراکلیس کا یاقوتی مجسمہ۔ (© Bruce M. White/Toledo Museum of Art)

یہ نمائشیں ابتدائی زمانوں اور تین بڑے مذاہب کی مستقل رسومات کا پتہ دیتی ہیں جن میں ہر ایک کی کہانی امریکی سرزمین جیسی ہی بھرپور اور متنوع ہے جہاں ان مذاہب (اور بہت سے دیگر) نے ترقی پائی۔