امریکی فضائیہ کی امریکی سمووا کی خاتون نے نئی تاریخ رقم کردی

 فوجی وردی میں ملبوس عورت کیک کاٹ رہی ہے (U.S. Air Force/Keith Keel)
فلوریڈا میں ہلرلبرٹ فیلڈ پر ہونے والی ایک تقریب میں، جسنٹا میگو چیف ماسٹر سارجنٹ کے عہدے پر اپنی ترقی کی خوشی منا رہی ہیں۔ (U.S. Air Force/Keith Keel)

جسنٹا میگو امریکہ کی مسلح افواج میں شمولیت کے لیے اپنے بہن بھائیوں کے نقش قدم پر تو ضرور چلیں مگر ان کے حصے میں تاریخ کی ایک پہلی کامیابی بھی آئی۔

میگو امریکہ کی فضائی فوج میں چیف ماسٹر سارجنٹ کے عہدے پر ترقی پانے والی امریکی سمووا سے تعلق رکھنے والی پہلی آبائی خاتون ہیں۔ یہ ایک امتیازی عہدہ ہے جس پر فضائی فوج کی مجموعی تعداد کے ایک فیصد ارکان ترقی پاتے ہیں۔

ان کی ترقی کی تقریب یکم فروری کو فلوریڈا کے ہلرلبرٹ فیلڈ میں منعقد کی گئی۔

امریکی سمووا جنوبی بحرالکاہل میں واقع امریکی عملداری کا ایک علاقہ ہے۔ یہاں سے  فوج میں بھرتی ہونے والوں کی شرح، امریکہ کی تمام ریاستوں اور علاقوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ علاقہ سات جزائر اور مرجانی جزیروں پر مشتمل ہے اور اس کا زمینی رقبہ لگ بھگ واشنگٹن کے رقبے کے برابر ہے۔

میگو اور اُن کے بہن بھائیوں کے لیے فوج میں بھرتی ہونا ایک خاندانی روایت ہے۔ اُن کی چار بہنیں اور ایک بھائی ہے۔ یہ سب یا تو فوج میں خدمات انجام دے رہے ہیں یا فوج میں خدمات انجام دے کر فارغ ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا، “ہماری ثقافت کا محور خدا، خاندان، احترام، خدمت اور پیار ہے۔”

505ویں ٹیسٹ اینڈ ٹریننگ گروپ (آزمائش اور تربیتی گروپ) کی سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے، میگو 500 افراد کی صحت، تربیت اور فلاح و بہبود کے امور کے بارے میں یونٹ کے کمانڈر کو مشورے دیتی ہیں۔

1998ء میں بھرتی ہونے سے قبل پیگو پیگو کے شہر سے تعلق رکھنے والی میگو نے ہونہار طالبہ ہونے کی وجہ سے اپنی ہائی سکول کی گریجوایشن کے وقت اپنی کلاس کی جانب سے الوداعی تقریرکی تھی۔ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں وہ کئی ایک ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ فضائی فوج کی زندگی مشکل ہوتی ہے اور اُن کا اپنے ساتھیوں کے لیے مستقل مزاجی اور لچکدار رویے کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ ہے۔

وہ کہتی ہیں، “اپنی ثقافت اور جس جگہ سے آپ کے تعلق ہے اُس کے بارے میں فخر محسوس کریں۔ آپ جسے اہم سمجھتے ہیں اُس سے پیچھے کبھی بھی نہ ہٹیں؛ جب آپ گریں یا راہ میں کوئی رکاوٹ آ جائے، پیچھے ہٹیں اور دوبارہ کوشش کریں یا دوبارہ جائزہ لیں اور پھر آگے بڑھیں۔”