امریکی فوج میں مسلمانوں کا امام مختلف ثقافتوں کے درمیان فاصلوں کو مٹانے کے لیے کوشاں

پینٹاگون کے  نائن الیون کے  یادگاری چیپل [گرجا گھر] کے اندر، جو اس مقام پر تعمیر کیا گیا ہے جہاں تقریباً 15 سال قبل دہشت گردوں نے حملہ کیا تھا، نماز کے لیے اذان کی آواز گونج رہی ہے۔

جو صاحب نماز کی امامت کریں گے ان کا نام داؤد اگبیر ہے۔ وہ امریکی فوج کے پانچ مسلمان چیپلوں [اماموں] میں سے ایک ہیں۔ جب سے اںہیں پینٹاگون میں تعینات کیا گیا ہے اس وقت سے وہ ظہر کی نماز کی امامت کرتے چلے آرہے ہیں اور اس طرح  یہاں کام کرنے والے مسلمانوں کو اپنے خالق کے ساتھ رشتہ جوڑنے کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔

پینٹا گون کی ایک کنٹریکٹر حبیبہ حیدر کا کہنا ہے، “انھوں نے یہاں جس کمیونٹی کی تعمیر کی ہے، اس کے ذریعے ہمیں ایک ایسی جگہ میسر آ گئی ہے جہاں ہم ہر روز آکر  نمازیں ادا کر سکتے ہیں …  یہ ایک بڑی بات ہے۔”

اگبیر فوج کے ایک عام لیفٹننٹ کرنل نہیں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ مغربی افریقہ کے ملک گھانا میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔

اگبیر نے کہا، “میرے والد صاحب کی کوشش تھی کہ مجھے گھانا کی فوج میں  بحیثیت امام کمیشن ملے۔ لیکن پھر امریکہ کی ویزا لاٹری میں میرا نام نکل آیا۔”

مہینوں تک ثانوی سکول کے شریر بچوں کو پڑھانے کے بعد، انھوں نے محسوس کیا کہ انہیں زیادہ نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔ اگبیر نے بتایا، “لہٰذا فوج میں شامل ہوجانا مجھے بہت آسان لگا اور میں نے محسوس کیا کہ میں صحیح جگہ پر آگیا ہوں۔”

آرمی چیپلین [امام] کی حیثیت سے، انہیں امریکہ کی خدمت کرتے ہوئے بیس سال ہو گئے ہیں۔ فوج میں ملازمت کے دوران وہ افغانستان اور عراق کے جنگی علاقوں میں جا چکے ہیں۔ اگبیر کا کہنا ہے کہ اکثر اپنے یونٹ میں اکیلا مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ثقافتوں کے درمیان پائے جانے والے فاصلوں کو مٹایا جائے۔

اگبیر نے بتایا، “افغانستان یا عراق کے لوگ جب مجھے اس  وردی میں دیکھتے ہیں تو ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ امریکہ میں، خاص طور سے امریکی فوج میں، کوئی مسلمان بھی ہو سکتا ہے۔ پھر جب وہ کسی [مسلمان] کو دیکھتے ہیں تو انہیں بڑی حیرت ہوتی ہے اور وہ خوش ہوتے ہیں۔”

اپنے گھر میں، اگبیر اپنے بچوں کو اسلامی اقدارسکھاتے ہیں اور انہیں کردار کی اہمیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔

اگبیر کے بیٹے طلاہتہ نے کہا، “وہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ہم اچھے گریڈز تو حاصل کر سکتے ہیں، لیکن اگر ہمارا کردار اچھا نہیں ہے تو گریڈوں کی کوئی اہمیت نہیں۔”