
ایسے میں جب امریکی فوج زیادہ متنوع ہوتی جا رہی ہے، مذہبی آزادی کے ساتھ امریکی عزم کی عکاسی کرتے ہوئے اس کے قوانین و ضوابط میں بھی وسعت پیدا کی جا رہی ہے۔
کنور سنگھ سکھ ہیں اور اپنے مذہب پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ انہوں نے 2014ء میں فوج میں شمولیت اختیار کی۔ اپنے مذہبی عقائد کے مطابق وہ داڑھی رکھنا اور سر پر پگڑی باندھنا چاہتے تھے۔ اس وقت فوج مذہبی سہولتوں سے متعلق فیصلے انفرادی بنیادوں پر کیا کرتی تھی۔
کنور سنگھ 2007ء میں بھارت سے امریکہ آئے۔ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی، مالیاتی شعبے میں ملازمت کی اور نیشنل گارڈ میں کمشن حاصل کیا۔
گو کہ اس عمل میں دو برس لگے مگر فوج نے کنور سنگھ کو 2016ء میں بنیادی لڑاکا تربیت حاصل کرنے کے لیےعبوری بنیادوں پر مذہبی سہولتوں کی اجازت دیدی۔
فوج نے 2017ء میں نئی پالیسی جاری کی۔ اس پالیسی کے تحت سکھوں اور دیگر مذہبی کمیونٹیوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو وردی میں اپنے مذہبی قواعد کی پاسداری کرنے کی اجازت دی۔
کنور سنگھ کے استثنا کو مستقل حیثیت دیدی گئی اور انہیں اپنی پوری پیشہ وارانہ زندگی میں پگڑی پہننے کی اجازت مل گئی۔ انہوں نے جب 2018ء میں فوج کے ایک کمشنڈ افسر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو انہوں نے پوری داڑھی رکھی ہوئی تھی اور سر پر سیاہ رنگ کی پگڑی پہنی ہوئی تھی۔
کنور سنگھ کہتے ہیں، “آج اگر ہزاروں نہیں تو سیکڑوں محب وطن امریکی سکھ، یہودی، مسلمان، عیسائی اور دیگر مذاہب کے ماننے والے فوج کے ایسے اراکین ہیں جنہیں مذہبی سہولتیں حاصل ہیں۔”

سمرن جیت سنھ لامبا سکھ کمیونٹی کے فوج میں شامل ہونے والے ایک اور فرد ہیں۔ وہ 2010ء میں مذہبی لباس کی سہولتیں حاصل کرنے والوں میں شامل تھے۔
سابقہ ضوابط کے تحت تمام فوجیوں کے لیے داڑھی مونچھ منڈاوانا ضروری تھا اور سر پر فوجی وردی میں شامل ٹوپی کے علاوہ کوئی دوسری چیز پہننے کی اجازت نہ تھی۔ سکھ بالوں کو جسم کا ہی ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ نہ کاٹے گئے بال خدا پر ایمان کی علامت ہوتے ہیں اور سر پر پگڑی ہمہ وقت باندھنی ہوتی ہے۔
کنور سنگھ نے کہا، ” بے لوث خدمت، واپس لوٹانا اور دوسروں کی مدد کرنا سکھ عقائد ہیں۔ اور میں محسوس کرتا ہوں کہ یہ حقیقت میں نہ صرف امریکی اقدار سے مطابقت رکھتے ہیں بلکہ یہ امریکی فوج کی اقدار سے بھی مطابقت رکھتے ہیں۔”