جن تین امریکی ماہرینِ معاشیات کے کام کی وجہ سے مالیاتی تباہی سے بچنے میں مدد ملی انہیں 10 اکتوبر کو معاشیات کے نوبیل انعام سے نوازا گیا۔
یہ تین ماہرین اقتصادیات، بین برننکی، ڈگلس ڈائمنڈ اور فلپ ڈیبوِگ ہیں۔ 1980 کی دہائی میں انہوں نے جو تحقیق کی اس نے معیشت میں بینکوں کے کردار کو تفصیل سے سمجھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
1930 کی دہائی کی عظیم کساد بازاری کے بارے میں برننکی کے تجزیے سے پتہ چلا کہ کساد بازاری کے دوران بینکوں کی مدد، شدید اور طویل معاشی بدحالی کو کیسے روک سکتی ہے۔ ڈائمنڈ اور ڈیبیوگ کی تحقیق نے معاشی استحکام کے لیے درکار مالیاتی ضابطوں کی بنیاد رکھی۔
نوبیل انعام حاصل کرنے والوں کا فیصلہ سویڈن کی “رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز” کرتی ہے۔ اکیڈمی کا کہنا ہے کہ اِن ماہرین اقتصادیات کے کام نے دنیا کے ممالک کے اقتصادی بحرانوں سے نمٹنے کے طریقوں کی صورت گری کی۔
اِن ایوارڈوں کا اعلان کرتے ہوئے اکیڈمی نے کہا کہ “دنیا بھر کے مرکزی بینکوں اور مالیاتی ضابطہ کاروں کی طرف سے دو حالیہ بڑے بحرانوں یعنی عظیم کساد بازاری اور کووڈ-19 عالمی وبا سے پیدا ہونے والی معاشی بدحالی کا مقابلہ کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کے بنیادی محرک نوبیل انعام یافتہ افراد کی تحقیق بنی۔”
This year’s laureates in economic sciences, Ben Bernanke, Douglas Diamond and Philip Dybvig, have significantly improved our understanding of the role of banks in the economy, particularly during financial crises, as well as how to regulate financial markets. #NobelPrize pic.twitter.com/5Z2ra3iHAd
— The Nobel Prize (@NobelPrize) October 10, 2022
2006 سے لے کر 2014 تک فیڈرل ریزرو کے چیئرمین کے طور پر برننکی نے اپنی تحقیق کو عملی جامہ پہنایا۔ برننکی کے اِن اقدامات نے 2008 کے مالیاتی بحران کو کساد بازاری میں تبدیل ہونے سے روکنے کے لیے امریکی حکومت کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کوششوں میں ملک کے بینک بھی شامل تھے۔
برننکی آج کل بروکنگز انسٹی ٹیوشن میں سینئر فیلو ہیں۔ انہوں نے 10 اکتوبر کو بروکنگز انسٹی ٹیوشن کی ایک تقریب میں کہا کہ 2008 میں وہ مالیاتی نظام کی اُس بدحالی کو روکنے کے لیے “ہر ممکن کوشش کرنے کا تہیہ کیے ہوئے تھے” جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ وسیع تر معیشت کو لے ڈوبئے گی۔
The work for which Ben Bernanke, Douglas Diamond and Philip Dybvig are being recognised has been crucial to subsequent research that has enhanced our understanding of banks, bank regulation, banking crises and how financial crises should be managed.#NobelPrize pic.twitter.com/4drJwZ0yF9
— The Nobel Prize (@NobelPrize) October 10, 2022
اکیڈمی کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی آف شکاگو کے، ڈائمنڈ اور سینٹ لوئس میں واشنگٹن یونیورسٹی کے، ڈیبوِگ کی تحقیق سے وہ میسر آئی جس نے “جدید بنکوں کے ضوابط کی بنیاد فراہم کی ہے۔” برننکی کی تحقیق کے ساتھ ساتھ، ڈائمنڈ اور ڈیبوِگ کے کام نے 2008 میں اور کووڈ-19 کی وبا کے دوران دنیا کے ملکوں کو مالی بدحالی سے نمٹنے میں مدد کی۔
اکیڈمی نے کہا کہ “انعام حاصل کرنے والوں کی فہم و فراست نے اس بات کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا کہ بعد میں پیدا ہونے والے معاشرے کے لیے تباہ کن نتائج کے حامل یہ بحران نئی کساد بازاریوں میں تبدیل نہ ہونے پائیں۔”