امریکی مدد سے تیار کی جانے والی کووڈ-19 کی ممکنہ ویکسینیں انہتائی موثر دکھائی دیتی ہیں

تجربہ گاہ کا کوٹ اور حفاظتی دستانے اور عینک پہنے ایک عورت تجربہ گاہ میں کام کر رہی ہے (© David L. Ryan/The Boston Globe/Getty Images)
امریکی حکومت کی شراکت سے کام کرتے ہوئے، ماڈرنا کے سائنس دانوں نے جو ممکنہ ویکسین تیار کی ہے اس کے کووڈ-19 کے خلاف 95 فیصد موثر ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ (© David L. Ryan/The Boston Globe/Getty Images) )

امریکی مدد سے تیار کی جانے والی کووڈ-19 کی دو ممکنہ ویکسینیں کووڈ-19 کو روکنے کے لیے انتہائی موثر دکھائی دیتی ہیں۔ امریکہ کی جانب سے اس عالمگیر وبا کو ختم کرنے کی تاریخی کوششوں میں یہ ایک بڑی پیشرفت ہے۔

ماڈرنا نے 16 نومبر کو اعلان کیا کہ تیسرے مرحلے میں کلینکوں میں کیے جانے والے آزمائشی تجربات کے آزاد ڈیٹا اور نگرانی کرنے والے بورڈ کے سامنے یہ بات آئی ہے کہ  میسا چوسٹس میں قائم اس حیاتیاتی ٹکنالوجی کمپنی کی ممکنہ ویکسین کے کلینکوں میں کیے جانے والے آزمائشی تجربات 94.5 فیصد تک موثر ہیں۔

نیویارک میں قائم فائزر نے 18 نومبر کو اعلان کیا کہ اس کی ممکنہ ویکسین پہلی خوراک کے 28 دن بعد کووڈ-19 کو روکنے میں 95 فیصد موثر دکھائی دیتی ہے۔

ماڈرنا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر، سٹیفان بینسل نے ایک بیان میں کہا، “جنوری کے اوائل سے لے کر اب تک ہم نے دنیا بھر میں جتنا ممکن ہو سکے اتنے زیادہ لوگوں کو محفوظ بنانے کی نیت سے، اس وائرس کا پیچھا کیا ہے۔ میں، اس مقام تک ہماری پیشرفت میں تیزی لانے والے، بارڈا [امریکہ کی حیاتیاتی طب کے جدید تحقیق اور ترقی کے ادارے] اور “آپریشن وارپ سپیڈ” نامی پراجیکٹ کے اپنے شراکت کاروں کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔”

ماڈرنا نے اپنی ویکسین امریکہ کے صحت کے قومی انسٹی ٹیوٹ (این آئی ایچ) کی شراکت سے جبکہ فائزر نے اپنی ویکسین جرمنی کی بائیو این ٹیک نامی کمپنی کی شراکت سے تیار کی ہے۔ امریکی حکومت نے دونوں ممکنہ ویکسینوں کو خریدنے کا وعدہ کیا ہے۔

ویکسین کی تیاری اور آزمائشی تجربات میں اگرچہ برسوں لگتے ہیں مگر ٹرمپ انتظامیہ نے “آپریشن وارپ سپیڈ” کے تحت کووڈ-19 کی ویکسین کی تیاری، کلینکوں میں آزمائشی تجربات، بڑے پیمانے پر ویکسینیں بنانے اور اِن کی تقسیم میں تیزی لانے کے لیے اربوں ڈالر لگائے ہیں۔

اس کوشش کے سلسلے میں اس سال کے اختتام سے قبل ایک محفوظ اور موثر ویکسین تلاش کرنے کی غرض سے امریکہ نے سرکاری سائنس دانوں، نجی دوا ساز کمپنیوں اور یونیورسٹیوں کے محققین کو اکٹھا کیا۔

امریکہ دیگر چار ممکنہ ویکسینوں کی بھی مدد کر چکا ہے۔ اِن میں ایسٹرا زینیکا بھی شامل ہے جس کا صدر دفتر برطانیہ میں ہے۔ اس کمپنی کی تیار کردہ ویکسین  کلینکوں میں کیے جانے والے آزمائشی تجربات کے مرحلے میں اگست میں پہنچی تھی۔

این آئی ایچ نے ایک بیان میں کہا کہ آزمائشی تجربات کے تیسرے مرحلے میں، محققین نے شرکاء کو دو گروپوں میں تقسیم کیا۔  ایک گروپ کو ویکسین اور دوسرے کو پلیسبو یعنی نقلی ویکسین لگائی گئی۔ ماڈرنا کے آزمائشی تجربات میں، عبوری تجزیے سے پتہ چلا کہ تجربات میں حصہ لینے والے 95 شرکا جنہیں کووڈ-19 ہوا، میں سے 90 پلیسبو گروپ اور پانچ ویکسین گروپ  سے تعلق رکھتے تھے۔

فائزر کے آزمائشی تجربات میں محققین کو پتہ چلا کہ کووڈ-19 کا شکار ہونے والے 170 افراد میں سے، 162 کو پلیسبو لگایا گیا جبکہ صرف آٹھ کو ویکیسین لگی۔ اس کے علاہ  کووڈ-19 کا شدید شکار ہونے والے 10 افراد میں سے صرف ایک کو ویکسین لگائی گئی۔ کمپنی نے 18 نومبر کو آزمائشی تجربات کے تیسرے مرحلے کی تکمیل کا اعلان کیا۔

این آئی ایچ کے الرجی اور متعدی بیماریوں کے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر، ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے 16 نومبر کو این بی سی کو بتایا کہ ماڈرنا کی ویکسین خطرات کا سامنا کرنے والے گروپوں کے لیے دسمبر میں تقسیم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا، لیکن امریکی عہدیدار یہ طے کرنے میں سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے کہ ویکسین کب تقسیم کی جائے، ۔

فاؤچی نے این بی سی کو بتایا کہ ویکسینیں تیار کرنے اور تقسیم کرنے میں “سب کو ساتھ لے کر چلیں گا۔ وہ (ویکسین تیار کرنے والے) چھوٹا راستہ نہیں اپنائیں گے بلکہ وہ تیز رفتاری سے کام کریں گے۔”