ہر دس برس کے بعد امریکہ اُن حدود کا نئے سرے سے تعین کرتا ہے جو وفاقی اور ریاستی سطحوں پر انتخابی حلقوں کے فیصلے کرتی ہیں۔

وفاقی حکومت میں ہر ریاست سے دو سینیٹر ہوتے ہیں۔ تاہم ایوان نمائندگان میں نشستوں کی تقسیم ریاستوں کی آبادی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس سلسلے میں مردم شماری ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ مردم شماری ہر دس برس کے بعد اُس برس میں ہوتی ہے جو صفر پر ختم  ہوتا ہے۔

1929ء میں امریکی ایوان نمائندگان کی زیادہ سے زیادہ تعداد 435 مقرر کی گئی تھی۔ لہذا اُن ریاستوں میں جہاں دوسری ریاستوں کی نسبت آبادی میں زیادہ تیزی سے اضافہ ہوتا ہے انہیں ایوان میں اضافی نشستیں ملتی ہیں جبکہ وہ ریاستیں جہاں آبادی میں یا تو سست رفتاری سے اضافہ ہوتا ہے یا اُن کے ہاں آبادی گھٹ جاتی ہے تواُن کی نشستیں کم ہو جاتی ہیں۔

گزشتہ صدی میں ملک کے جنوب اور مغرب میں واقع ریاستوں میں نشستوں کی تعداد میں بالعموم اضافہ ہوا اور اس کی قیمت شمال اور مشرق کی ریاستوں کو چکانا پڑی۔

 امریکہ کے ایوان نمائندگان میں 1920ء میں اراکین کی تعداد دکھانے والا نقشہ (State Dept./S. Gemeny Wilkinson)
(State Dept./S. Gemeny Wilkinson)
 امریکہ کے ایوان نمائندگان میں 2020ء میں اراکین کی تعداد دکھانے والا نقشہ (State Dept./S. Gemeny Wilkinson)
(State Dept./S. Gemeny Wilkinson)

2020ء کی مردم شماری کے بعد ایوان میں پانچ ریاستوں یعنی کولوراڈو، فلوریڈا، مونٹینا، شمالی کیرولائنا، اوریگون کی مجموعی نشستوں میں ایک ایک نشست کا اضافہ ہوا جبکہ ٹیکساس کی دو نشستیں زیادہ ہوئیں۔ اس کے برعکس سات ریاستوں یعنی کیلی فورنیا، ایلانائے، مشی گن، نیو یارک، اوہائیو، پنسلوینیا اور مغربی ورجینیا کی ایوان میں ایک ایک نشست کم ہوئی۔

کانگریس میں نمائندگی کے علاوہ زیادہ نشستیں ملنے سے ہر چار برس بعد صدر کا انتخاب کرنے والے الیکٹورل کالج میں بھی ریاستوں کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے۔ کسی ریاست کے نمائندوں کی مجموعی تعداد میں ریاست کی امریکی سینیٹ میں سینیٹروں کی دو نشستوں کو جمع کر کے اُس ریاست کے مجموعی الیکٹورل ووٹوں کی تعداد نکال لی جاتی ہے۔ اس قاعدے سے ڈسٹرکٹ آف کولمبیا (ڈی سی) کو استثنا حاصل ہے۔ گو کہ ایوان میں ڈی سی کو نمائندگی حاصل نہیں ہے تاہم اسے امریکی آئین کی تئیسویں ترمیم کے مطابق سب سے کم آبادی والی ریاستوں کے برابر یعنی تین الیکٹورل ووٹ حاصل ہیں۔

ایک مرتبہ جب ہر ریاست کو یہ معلوم ہو جائے کہ امریکی ایوان نمائندگان میں اس کی کتنی نشستیں ہوں گیں تو پھر اُن ریاستوں میں جہاں ایک سے زائد نمائندہ ہو اُن کے لیے حلقوں کی نئی حدبندیاں کرنا لازم ہو جاتا ہے۔

ورجینیا یونیورسٹی کے مرکز برائے سیاسیات میں امریکی ایوان نمائندگان کی سیاست کا تجزیہ کرنے والے کائل کونڈیک کہتے ہیں، “اصول یہ ہے کہ ایک آدمی ایک ووٹ۔ اگر آپ ایک حلقے میں رہتے ہیں اور میں کسی دوسرے حلقلے میں رہتا ہوں اور دونوں حلقوں کی قریب قریب برابر آبادی ہے تو ہمارے ووٹوں کی طاقت برابر ہوگی۔”

تاریخی طور پر ریاستی حکام نے اکثر ایسے طریقے سے نئی حلقہ بندیاں کرتے چلے آئے ہیں جس سے اُن کی پارٹی کو ممکنہ طور پر فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ صدر جیمز میڈیسن دوبارہ حقلہ بندیوں کی ایک ناکام کوشش  کا نشانہ بنے اور کانگریس کی رکنیت حاصل نہ کر سکے۔ کسی ایک سیاسی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے حلقہ بندیوں کو ازسرنو متعین کرنا “جیری مینڈرنگ” (انتخابی حد بندیوں میں ہیر پھیر کرنا) کہلاتا ہے۔ یہ کام ایلبرج جیری نے کیا جو ایک دیکھتے ہی دیکھتے میڈیسن کے نائب صدر بن گئے۔ ان کے نام کی مناسبت سے یہ عمل “جیری مینڈر” کہلایا۔

کونڈیک نے کہا کہ دہائیوں تک انتخابی حلقوں کی برابری کے بارے میں فکر مند نہ ہونے کے بعد، امریکی سپریم کورٹ نے 1960 کی دہائی میں کئی ایک وہ فیصلے سنائے جن میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ حلقوں کی آبادی قریب قریب برابر ہونا چاہیے۔

اگر ریاستی مقننہ اور اس کا گورنر انتخابی حلقوں کی حدبندیوں پر متفق نہ ہوں تو عدالتیں اس تنازع کو حل کرتی ہیں۔

جیری مینڈرنگ سے بچنے کی خاطر بعض ریاستیں منتخب عہدیداروں کی طرف سے حلقہ بندیاں کرنے کی بجائے آزادانہ کمشن مقرر کرتی ہیں۔

اس کے باوجود ابھی تک ازسرنو حلقہ بندیوں کی ترجیحات پر متفق ہونا مشکل ہے۔ کیا دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان مسابقت پیدا کرنے کے لیے  جتنے زیادہ ممکن ہوں اتنے زیادہ حلقے بنانے کے لیے حلقہ بندیاں کرنا چاہیے؟ کیا حلقوں کو ووٹروں کی اُن لوگوں کو منتخب کرنے کی اہلیت کو تحفظ دینا چاہیے جن کا تعلق کم نمائندگی والے گروپوں سے ہوتا ہے؟ یا بعض اوقات سیاسی وجوہات کی بنا پرعجیب و غریب شکلوں والے حلقے تراشنے کی بجائے، حلقوں کو شہر اور قصبوں کی منطقی حدود اپنا کر زمین کے ایک مکمل قطعے کی شکل دینا چاہیے؟

کونڈیک کا کہنا ہے، “ازسرنو انتخابی حد بندیاں اس لیے ایک مشکل کام ہے کیونکہ لوگوں کو اس بات پر اختلاف کرنے کا اختیار ہے کہ ان کا مقصد کیا ہونا چاہیے۔”