امریکی موسیقی کی صورت گری کرنے والے امریکی موسیقار

جیسی منٹگمری سٹیج پر وائلن بجا رہی ہیں (© Hiroyuki Ito/Getty Images)
جیسی منٹگمری 2018 میں نیویارک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے۔ (© Hiroyuki Ito/Getty Images)

امریکہ کی کلاسیکی پیانو نواز، لارا ڈاؤنز سیاہ فام امریکی موسیقاروں کی کلاسیکی موسیقی کو مقبول بنانے کے مشن پر کام کر رہی ہیں۔

سکاٹ جوپلن (© MPI/Getty Images)
سکاٹ جوپلن کو امریکی موسیقی میں اُن کی خدمات پر 1976 میں اُن کی وفات کے بعد ‘پلٹزر پرائز’ نامی انعام دیا گیا۔ (© MPI/Getty Images)

ڈاؤنز اپنا ایک ریڈیو شو کرتی ہیں۔ وہ سکاٹ جوپلن (1868–1917) کا شمار کلاسیکی موسیقی کے میدان کی انقلابی شخصیات میں کرتی ہیں۔ بنیادی طور پر جوپلن کی موسیقی کا اثر گو کہ امریکہ کی مقبول موسیقی میں محسوس کیا جاتا ہے تاہم ڈاؤنز ان کا شمار کلاسیکی موسیقی کے شعبے میں ہی کرتی ہیں۔

جوپلن “ریگ ٹائم کے بادشاہ” کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے “میپل لیف ریگ” (1899) اور “دی انٹرٹینر” (1902) کے ناموں سے پیانو موسیقی کے مشہور شاہکار تخلیق کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ٹریمونیشا (1911) نامی اوپیرا کے لیے بھی موسیقی ترتیب دی جس میں سیاہ فاموں کے لوک اور روحانی گیتوں کے ساتھ ساتھ کورس کی شکل میں اور ‘آریا’ صنف کے گانے بھی شامل تھے۔

ڈاؤنز کہتی ہیں کہ جب جوپلن نے 1893 میں شکاگو میں ہونے والے عالمی میلے میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تو “ریگ ٹائم موسیقی پہلی بار عوام تک پہنچی” اور اس نے عوامی مقبولیت پائی۔ ڈاونز بتاتی ہیں کہ ریگ ٹائم، موسیقی کی صنف جاز کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور اس نے انیسویں اور بیسویں صدیوں کے درمیان پل” کا کام کیا۔ جوپلن نے جیلی رول مورٹن (1890–1941) اور ڈیوک ایلنگٹن (1899–1974) جیسے جاز پیانو نوازوں کو متاثر کیا۔

ڈاؤنز کے مطابق ریگ ٹائم گانے کے بولوں کے الفاظ میں سے حروف کو حذف کرنا “ایک ایسی اختراع تھی” جس نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ “ہر قسم کی اُس مقبول موسیقی میں جو ہم سنتے ہیں حذف شدہ حروف والے الفاظ کی کوئی نہ کوئی ایسی دھن ہوتی ہے جسے ریگ ٹائم نے متعارف کروایا ہوتا ہے۔ جاز، دی بلیوز، راک ‘این’ رول اور ہپ ہاپ اِن سب کا ماخذ ریگ ٹائم ہی ہے۔”

موسیقی سے بھرپور ورثہ

مقبول امریکی موسیقی میں سیاہ فام موسیقاروں اور موسیقی ترتیب دینے والوں کے بڑے کردار کو وسیع پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان موسیقاروں نے کلاسیکی موسیقی کے حلقوں میں بھی اپنے لیے ایک اچھا خاصا مقام بنایا ہے۔

ڈاؤنز اس بات کا اقرار کرتی ہیں کہ وہ بذات خود یہ سوچتے ہوئے بڑی ہوئیں کہ کلاسیکی موسیقی ایک یورپی روایت ہے۔ اپنی زندگی کے بیشتر ابتدائی حصے میں پیانو سیکھنے کے بعد نوجوانی کی عمر میں ڈاؤنز نے سیاہ فام موسیقاروں کے تخلیق کردہ موسیقی کے شاہکاروں کا مطالعہ کیا اور یہ جانا کہ کہ سیاہ فام امریکیوں نے کنسرٹ، سمفونی اور اوپیرا کے لیے دھنیں ترتیب دیں۔

کرسی پر بیٹھیں لارا ڈاؤنز (Courtesy of Max Barrett/Lara Downes)
لارا ڈاؤنز (Courtesy of Max Barrett/Lara Downes)

جوپلن کا  ٹریمونیشا (بہت سے سکالروں کے خیال میں جارج گیرشون کا 1935 کا ‘پورگی اور بیس‘  ٹریمونیشیا سے ہی متاثر ہو کر لکھا گیا تھا) دریافت کرنے کے علاوہ ڈاؤنز نے فلورنس پرائس (1887–1953) اور ولیم گرانٹ سٹِل (1895–1978) کے شاہکار بھی دیکھے۔ پرائس پہلی افریقی نژاد امریکی خاتون تھیں جنہوں نے کسی بڑے سمفنی آرکسٹرا کے لیے موسیقی ترتیب دی جبکہ سٹِل نے پانچ سمفونیز اور آٹھ اوپیراز کے لیے انتہائی شاندار موسیقی ترتیب دی۔

ڈاؤنز نے کہا کہ حالیہ برسوں میں افریقی نژاد امریکی موسیقاروں کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے والے “[کلاسیکی] فنکاروں اور موسیقی کے مداحین کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔”

اکیسوی صدی کے موسیقی کے رجحانات

ڈاؤنز کہتی ہیں کہ آج کے افریقی نژاد امریکی کلاسیکل موسیقار ایک نیا زاویہ نظر لے کر آئے ہیں۔ اِس ضمن میں وہ واشنگٹن کے جان ایف کینیڈی سنٹر کے پرفارمنگ آرٹس کے اقامتی موسیقار، کارلوس سِمن اور شکاگو سمفنی آرکسٹرا کی جیسی منٹگمری کا حوالہ دیتی ہیں۔

سِمن کا تعلق اٹلانٹا سے ہے اور اُن کی موسیقی کی بنیادیں مذہبی غنائیوں سے اٹھی ہیں۔ وہ اکثر نیشنل سمفنی آرکسٹرا اور واشنگٹن نیشنل اوپیرا کے لیے موسیقی ترتیب دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں نیویارک فلہارمونک اور لاس اینجلس فلہارمونک کے لیے موسیقی ترتیب دینے کا کام بھی سونپا گیا ہے۔ انہوں نے روزنامہ واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ “موسیقی میرا منبر ہے اور اسی سے میں [موسیقی] کا پرچار کرتا ہوں۔”

بازو پھیلائے کھڑے کارلوس سِمن (© Lester Cohen/Getty Images/The Recording Academy)
کارلوس سِمن اس ماہ لاس اینجلیس میں ہونے والی گریمی ایوارڈز کی تقریب میں شرکت کر رہے ہیں۔ (© Lester Cohen/Getty Images/The Recording Academy)

منٹگمری کا تعلق نیویارک سے ہے۔ انہوں نے اکیلے ساز بجانے والوں، گروپ کی شکل میں یا اکیلے گانے والوں اور آرکیسٹرا کے لیے موسیقی ترتیب دی۔ شکاگو سمفنی آرکسٹرا کی ویب سائٹ کے مطابق “اُن کی موسیقی جو ہے وہ روزمرہ کی موسیقی، موسیقی کو بہتر بنانے، شاعری اور سماجی شعور کو آپس میں ایک دوسرے سے ملاتی ہے جس نے انہیں اکیسویں صدی کی آواز اور تجربے کی ایک مسلمہ ترجمان بنا دیا ہے۔”

ڈاؤنز اس بات کا بھی ذکر کرتی ہیں کہ آج کے سیاہ فام موسیقاروں کی ترتیب کردہ موسیقی میں “جاز اور روحانیت کی بازگشت سنائی دیتی ہے اور یہ امریکی موسیقی کی کاملیت کو اپنائے ہوئے ہے۔” اس ضمن میں وہ مائیکل ایبلز کی موسیقی کا حوالہ مثال کے طور پر پیش کرتی ہیں جس میں ایبلز نے آرکسٹرا، کنسرٹوں، اوپیرا اور فلمی موسیقی کو غیر روائتی انداز میں ترتیب دیا ہے۔ انہوں نے اوپیرا کی تعلیم حاصل کرنے والی، ریحینن گڈنز کا ذکر بھی کیا جو اپنے کام میں موسیقی کی روایات کا بہت زیادہ استعمال کرتی ہیں۔

ڈاؤنز کا کہنا ہے کہ وہ ایسے بہت سے سیاہ فام موسیقاروں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں جو اپنے انتہائی دلچسپ تجربات سے “کوئی خوبصورت اور لازوال” تخلیق کرکے “جس طرح کی دنیا میں ہم رہنا چاہتے ہیں اُس کی اور ہماری مشترکہ انسانیت” کی عکاسی کرتے ہیں۔ اُن کا مزید کہنا ہے کہ “جو چیز امریکی موسیقی کے بارے میں میرے لیے سب سے زیادہ فخر کا باعث بنتی ہے وہ کسی بہتر چیز کا تصور کرنے اور سامعین تک اس امید کو پہنچانے کی صلاحیت ہے۔”