امریکی ووٹروں کا ریاستی اسمبلیوں کے لیے زیادہ متنوع پس منظر کے حامل اراکین کا انتخاب

جیسے جیسے امریکہ کی آبادی زیادہ متنوع ہوتی جا رہی ہے ویسے ویسے امریکہ میں منتخب ہو کر آنے والے عوامی عہدے دار بھی متنوع ہوتے جا رہے ہیں۔ امریکی ووٹروں نے 2016 کے انتخابات میں ریاستوں کی سطح پر، بہت سے متنوع امیدواروں کو منتخب کیا ہے۔ ان میں منیسوٹا میں ایک صومالی-امریکی خاتون قانون ساز اور وایومنگ میں ناواہو قبیلے کی پہلی خاتون سینیٹر شامل ہیں۔

حکومت میں قومی سطح پر یہ تبدیلی نظر آنے لگی ہے اور اب کانگریس کے ہر 5 ارکان میں سے ایک کا تعلق کسی نہ کسی نسلی یا لسانی اقلیت سے ہے۔

تاہم ریاستوں کے عہدے داروں میں ابھی یہ نسلی یا لسانی تنوع اس درجے پر نہیں پہنچا۔ 2015ء کے ایک تحقیقی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ ریاستوں کے قانون سازوں میں اب “پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ یہ بات ظاہر ہونے لگی ہے کہ وہ بھی اتنے ہی متنوع ہیں جتنے وہ لوگ جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔”

ریاستوں میں نومنتخب قانون سازوں میں سے چند ایک یہ ہیں:

  • الحان عمر ریاست منیسوٹا میں منتخب ہونے والی پہلی صومالی امریکی مسلمان خاتون ہیں۔ عمر جو حجاب پہنتی ہیں، ویمن آرگنائزنگ ویمن نیٹ ورک میں پالیسی کے ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ یہ گروپ تارکینِ وطن کے شہری امور میں دلچسپی لینے اور لیڈر بننے کی وکالت کرتا ہے۔ وہ صومالیہ میں پیدا ہوئیں۔ ایک نوجوان لڑکی کی حیثیت سے امریکہ آنے سے پہلے وہ ایک وقت میں کینیا میں پناہ گیزینوں کے ایک کیمپ میں مقیم رہیں۔

  • ریاست وایومنگ کی سابق اسسٹنٹ اٹارنی جنرل، ایفی ایلس ریاستی سینیٹ میں منتخب ہونے والی ناواہو قبیلے کی پہلی خاتون ہیں۔ وہ یونیورسٹی آف وایومنگ میں نائب پروفیسر کی حیثیت سے وفاقی انڈین پالیسی کا مضمون پڑھاتی رہی ہیں۔
  • یو لائن نیو، ریاست نیویارک کی قانون ساز اسمبلی کی پہلی ایشیائی امریکی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ یو لائن نیو تائیوان میں پیدا ہوئیں۔
  • اٹیکا سکاٹ، کینٹکی کی قانون ساز اسمبلی میں 17 برسوں میں منتخب ہونے والی پہلی سیاہ فام خاتون ہیں۔

کینٹکی کے 100 رکنی ایوانِ نمائندگان میں سکاٹ واحد سیاہ فام خاتون ہوں گی۔ ان کا کہنا ہے، “ایوان میں صرف میرا موجود ہونا کوئی ایسی بات نہیں جس کا ہم جشن منائیں۔”

وہ کہتی ہیں، “اہم بات یہ ہے کہ لوگ مجھے اس عہدے پر دیکھیں اور یہ سمجھیں کہ یہ چیز ممکن ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سول سوسائٹی کس قسم کی ہے۔”

یہ مضمون فری لانس مصنفہ کیتھلین مرفی نے تحریر کیا۔