ٹرمپ انتظامیہ کی ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی مہم ایرانی حکومت کی معیشت میں تباہی لا رہی ہے۔ یہ مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ایرانی حکومت عدم استحکام کا رویہ اپنائے رکھے گی۔
دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی دنیا کی اس سرکردہ ریاست کے خلاف امریکی پابندیاں انتہائی موثر ثابت ہو رہی ہیں کیونکہ تقریباْ ہر ایک پیمانے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانی معیشت کی حالت دگرگوں ہے۔
ایران کی تیل کی برآمدات کو نشانہ بنانے سے ایرانی حکومت اربوں ڈالر کی اُس آمدنی سے محروم ہو رہی ہے جو بصورت دیگر پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی سپاہ کی قدس فورس، حزب اللہ، حماس اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی مدد کرنے پر خرچ کرتی ہے۔
ایران کے تیل کے وزیر، بیژن زنگنہ نے جون میں کہا کہ تیل کی برآمدات 1980 کی دہائی میں ہونے والی ایران اور عراق کی جنگ کے دوران برآمد کیے جانے والے تیل کی مقدار سے بھی کم ہو چکی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب ایران کے تیل کے کنویں حملوں کی زد میں ہوا کرتے تھے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق زنگنہ نے کہا، ” موجودہ صورت حال جنگ کے دوران ہماری صورت حال سے بھی بدتر ہے۔ ہمارے برآمدات کے مسائل اُس وقت اس طرح کے نہیں تھے جب صدام ہمارے صنعتی یونٹوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔ ہم ایران کے نام سے تیل برآمد نہیں کر سکتے۔”
اِن حالات میں ایرانی عوام بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ایسے میں حکومت ملک کے اندر اُن کی مشکلات کم کرنے کی بجائے بیرونِ ملک دہشت گردی کروانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ افراط زر کی شرح 48% تک پہنچ چکی ہے اور گزشتہ برس میں سبزیوں اور گوشت کی قیمتوں میں 100% سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔
اس سال کے اوائل میں ایران کے سرکاری ٹیلی وژن پر تقریر کرتے ہوئے صدر حسن روحانی نے صورت حال اِن الفاظ میں بیان کی: “آج ملک کو گزشتہ 40 برس کے دوران پڑنے والے دباؤ کی نسبت سب سے زیادہ دباؤ اور اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے۔”
زیادہ سے زیادہ دباؤ اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک ایرانی حکومت اُس طرح کا رویہ نہیں اپناتی جو ایک عام ملک اپناتا ہے۔