امریکہ کا ڈاک کا محکمہ ہر برس چند درجن ڈاک کے یادگاری ٹکٹ جاری کرتا ہے۔ اِن کے ذریعے معروف امریکیوں یا امریکی طرز حیات کے کسی پہلو کو اجاگر کیا جا تا ہے۔ ہمارے پسندیدہ ڈاک ٹکٹوں میں سے چند ایک ذیل میں دیئے جا رہے ہیں:-
یوگی بیرا

یوگی بیرا (1925–2015) کا شمار اپنے دور کے میجر لیگ کے بہترین بیس بال کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔ وہ نیویارک یانکیز نامی ٹیم کے لیے کھیلا کرتے تھے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ 10 عالمی سیریز کے ٹائٹل جیتے جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ 1963 میں ریٹائر ہونے کے بعد انہوں نے مینیجر کے طور پر کام کرنا شروع کیا اور عالمی سیریز میں دو ٹیموں یعنی 1964 میں یانکیز اور 1973 میں نیویارک میٹس نامی ٹیموں کی کوچنگ کی اور اُن کے انتظامی معاملات چلائے۔ انہیں 1972 میں “نیشنل بیس بال ہال آف فیم” [بیس بال کے نامور کھلاڑیوں کے ہال] میں شامل کیا گیا۔
بیرا کو ان کے ذاتی تردید کرنے والے اقوال کی وجہ سے بھی ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا، “بیس بال 90٪ ذہنی ہے، اور باقی نصف جسمانی ہے۔” ایک بار وہ کہتے ہیں، “مستقبل وہ نہیں جو پہلے ہوا کرتا تھا۔”
ارسلا لاگوئن

مصنفہ ارسلا لاگوئن (1929–2018) نے قارئین میں سائنسی افسانوں اور تخیلات کی سمجھ بُوجھ کو عام کیا۔ اُن کی دیومالائی کہانیوں، بشریات، حقوق نسواں اور تاؤ ازم میں دلچسپیوں نے انہیں ایسے انداز میں لکھنے کی طرف راغب کیا جو افسانے اور شاعری کی روایات کے خلاف تھا۔ (انہوں نے افسانوں کے علاوہ بھی مضامین لکھے اور دیگر زبانوں کی تصانیف کے ترجمے بھی کیے۔)
لا گوئن کی 1968 میں ” اے وِزرڈ آف ارتھ سی” [زمین اور سمنرکا جادوگر] کے نام سے لکھی جانے والی کتاب کو مقبولیت ملی۔ یہ ایک وسیع و عریض جزیرے پر رہنے والے ایک نوجوان جادوگر کی تعلیم کے بارے میں لکھا گیا ناول تھا۔ اس سے اگلے برس انہوں نے “دی لیفٹ ہینڈ آف ڈارکنیس” [اندھیرے کا بایاں ہاتھ] کے عنوان سے اپنی کتاب شائع کی۔ اس ایوارڈ یافتہ ناول کا تعلق ایک ارضی سفارت کار کے بارے میں تھا جو ایک ایسے سرد سیارے کا سفر کرتا ہے جہاں دو قومیں جنگ کے دہانے پر آمنے سامنے کھڑی ہیں اور جہاں کے باشندوں کی کوئی مقررہ جنس نہیں۔ ساتھی مصنف مائیکل چابون نے لا گوئن کو “اپنی نسل کی عظیم امریکی مصنفہ” قرار دیا۔
جاپانی نژاد امریکی سپاہی

ایک تصویر کے مطابق یہ ڈاک ٹکٹ اُن 33,000 جاپانی نژاد امریکیوں کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے جنہوں نے دوسری عالمی جنگ کے دوران امریکی فوج میں خدمات انجام دیں۔ “گو فار بروک” دوسری نسل کے اُن جاپانی امریکیوں کا نصب العین تھا جنہیں “نِسے” کہا جاتا تھا۔ اِن جاپانی نژاد امریکیوں نے 100ویں انفنٹری بٹالین/442 رجمنٹل لڑاکا ٹیم تشکیل دی۔ اس ٹیم کا شمارجنگ کے دوران سب سے ممتاز امریکی لڑاکا یونٹوں میں ہوتا تھا۔
بحرالکاہل کے محاذ پر بھی فوج نے مترجمین، ترجمانوں اور تفتیش کاروں کے طور پر کام کرنے کے لیے “نِسے” سے رجوع کیا۔ فوج کے تعمیراتی شعبے کی 1399ویں انجینئر بٹالین میں تقریباً 1,000 نِسے نے خدمات انجام دیں اور 100 سے زیادہ نِسے عورتوں نے خواتین کی آرمی کور میں شمولیت اختیار کی۔
چیئن-شیونگ وُو

چیئن شیونگ- وُو (1912–1997) کا شمار بیسویں صدی کے بااثر ترین جوہری طبیعیات دانوں میں ہوتا تھا۔ 40 سال سے زیادہ عرصے پر محیط اپنی پیشہ ورانہ زندگی کے دوران وہ طبیعیات کے بنیادی نظریات کو جانچنے کی ایک مسلمہ ماہر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئیں۔
چین میں پیدا ہونے والی وُو نے 1940 میں کیلی فورنیا یونیورسٹی، برکلے سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد میں کولمبیا یونیورسٹی میں پڑھانے کے دوران انہوں نے مین ہٹن پروجیکٹ میں شمولیت اختیار کی۔ یہ وہی سرکاری پروگرام تھا جس کے تحت اولین جوہری ہتھیار تیار کیے گئے۔ تاہم انہوں نے تجرباتی طبیعیات کو جاری رکھا اور اپنے سب سے مشہور تجربات میں سے ایک میں یہ ثابت کیا کہ ایک جیسے ایٹمی ذرات ہمیشہ یکساں طور پر کام نہیں کرتے۔
وہ 1954 میں امریکی شہری بنیں۔ وُو نے سِکل سیل کی بیماری پر بھی تحقیق کی اور لڑکیوں کو سائنسی شعبوں میں پیشے اپنانے کی ترغیب دی۔
کیتھرین گراہم

کیتھرین گراہم (1917–2001) امریکی صحافت کی ایک طاقتور شخصیت تھیں۔ 2022 میں اُن کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ڈاک کا ایک ٹکٹ جاری کیا جائے گا۔ “فارچون 500” کمپنی کی پہلی خاتون سربراہ، کیتھرین گراہم نے امریکی تاریخ کے ہنگامہ خیز دور کے دوران واشنگٹن پوسٹ کمپنی کی مالکہ اور صدر کی حیثیت سے اہم کردار ادا کیا۔ وہ اس بڑے اخبار کی ناشر بھی تھیں۔
اُن کے واشنگٹن پوسٹ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد یہ اخبار واٹر گیٹ سکینڈل کی رپورٹنگ کی وجہ سے عروج کی نئی بلندیوں کو چھونے لگا۔ یاد رہے کہ واٹر گیٹ سکینڈل 1974 میں صدر رچرڈ نکسن کے استعفے کی ایک بڑی وجہ بنا۔ گراہم نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا اختتام 80 سال کی عمر میں اپنی یادداشت، ” ذاتی تاریخ” کی اشاعت اور اس پر 1998 کا پلٹزر پرائز جیت کر کیا۔ اپنے شوہر کی ذہنی بیماری اور مردوں کے غلبے والی کام کی جگہوں پر درپیش چیلنجوں کے بارے میں اپنی صاف گوئی کی وجہ سے اُن کی بہت ستائش کی گئی۔