ایشیا کے اپنے دورے کے دوران صدر ٹرمپ نے امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والے چینی طلبا کو “عظیم طالب علم اور زبردست اثاثہ” قرار دیا۔
حال ہی میں امریکہ کی وزارت خارجہ کی اسسٹنٹ سیکرٹری برائے تعلیمی و ثقافتی امور، میری روئس نے لگ بھگ 500 بین الاقوامی ماہرین تعلیم کو واشنگٹن میں ایجوکیشن یو ایس اے فورم میں اپنے خطاب کے دوران صدر کے الفاظ یاد دلائے۔ انہوں نے کہا، “ہم چین سے تعلق رکھنے والے طلبا کی اپنے کیمپسوں پر، اپنی کمیونٹیوں میں اور اپنے ملک میں موجودگی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔”

روئس نے مزید تعلیمی تبادلوں اور اُس بڑھتی ہوئی مفاہمت کے بارے میں اپنی امید کا خصوصی اظہار کیا جو اِن تبادلوں کے نتیجے میں چینی، دیگر بین الاقوامی طلبا اور امریکیوں کے مابین پیدا ہوتی ہے۔
امریکی کالج اور یونیورسٹیاں تعلیم کے دوران طلبا کی مدد کرتی ہیں۔ بہت سی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں نئے طالب علموں کی مدد کے لیے سرپرستوں کی صورت میں ساتھی طلبا مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہ سرپرست طلبا ‘رائٹنگ سنٹروں’ میں پڑہانے اور ہاسٹلوں میں رہائشی معاونوں کے طور پر کام کرتے ہیں اور انہیں نئے طلبا کے سوالات کے جوابات دینے اور اِن کے ساتھ دوستانہ انداز سے پیش آنے کی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں۔ موسم خزاں میں طلبا کو گھلنے ملنے میں مدد دینے کی خاطر بعض یونیورسٹیاں “فٹ بال 101” کے نام سے سیمیناروں کا اہتمام کرتی ہیں تاکہ نئے آنے والوں کو پہلے بڑے میچ سے قبل امریکی فٹ بال کے قواعد سے واقفیت حاصل ہو سکے۔
روئس کے کہنے کے مطابق جب بات نصابی تعلیم کی ہوتی ہے تو “امریکہ میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی تعلق تنقیدی سوچ کی صلاحیتیں حاصل کرنے، اظہار رائے کی آزادی اور سوچ کی آزادی پیدا کرنے سے ہوتا ہے۔”
جو طلبا اور طالبات امریکہ میں تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں وہEducationUSA سے معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔