Drawing of cupped hand reaching toward man with head turned away (State Dept./D. Thompson)
(State Dept./D. Thompson)

چالیس سال پہلے امریکہ نے ایک ایسا قانون بنایا جس کے تحت کمپنیوں کو بیرونی ممالک میں کاروبار حاصل کرنے کے لیے رشوت دینے کی ممانعت کی گئی تھی۔ ایک طویل عرصے تک امریکہ اس طرح کی قانونی پابندی لگانے والا واحد ملک رہا۔

بالاآخر دنیا کے بیشتر ممالک نے بھی یہی راہ اختیار کی۔ معاشی تعاون اور ترقی کی تنظیم نے 1997 میں رشوت کے خلاف کنونشن منظور کیا اور اقوام متحدہ نے 2003 میں اس حوالے سے اپنے میثاق کی منظوری دی جس پر اب 181 ممالک نے دستخط کر رکھے ہیں۔

ان قوانین کا نفاذ کرنے والے [بین الاقوامی] اداروں نے امریکی محکمہ انصاف اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ساتھ مل کر عالمی پابندیوں کے خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں سے کروڑوں  ڈالر واپس لینے کے لیے کاروائیاں کیں۔ امریکہ میں رشوت کے خلاف بین الاقوامی قوانین کے علاوہ، ملکی قوانین کے تحت بھی کاروائی کی جاتی ہے۔

بڑی امریکی کمپنیوں کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ رشوت یا کک بیکس دینے سے انکار ان کے بیرون ملک کاروبار کے لیے فائدہ مند ہے۔ اس سے انہیں اشیا  کی فروخت یا منافع کے حصول میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی۔

دیانت داری کا صلہ ملتا ہے

ریتھیان کمپنی کے چیئرمین تھامس کینیڈی کہتے ہیں کہ بیرون ملک بدعنوانی پر مبنی افعال کی روک تھام کے قانون پر عمل کرنے سے انہیں فائدہ ہوا ہے۔ وہ اس تصور کو رد کرتے ہیں کہ کاروبار میں کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی۔ گزشتہ برس فضائی اور دفاعی پیداوار کے شعبے میں کام کرنے والی اس کمپنی کی ایک تہائی سیل بیرون ملک 80 سے زیادہ ممالک میں ہوئی۔

ریتھیان کے نائب صدر اور وکیل، فرینک جیمنیز کا کہنا ہے، “ہمارے گاہک دیانت دار کمپنی کے ساتھ کاروبار کرنا پسند کرتے ہیں۔”

بدعنوانی کی روک تھام ناصرف واضح اخلاقی وجوہات کی بنا پر امریکی قومی سلامتی کی پالیسی کی بنیاد ہے بلکہ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ جن ممالک میں بدعنوانی عام ہوتی ہے انہیں دیگر مسائل کا مسلسل سامنا رہتا ہے۔ بدعنوانی معاشی نمو کو کھوکھلا کر دیتی ہے، ترقی کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہے، حکومتوں کو عدم استحکام سے دوچار کرتی ہے، جمہوریت کو نقصان پہنچاتی ہے اور جرائم پیشہ لوگوں، سمگلروں اور دہشت گردوں کی راہیں آسان کرتی ہے۔

رشوت کی بھاری قیمت

امریکہ میں نفاذِ قانون کے ذمہ دار اداروں نے انسداد رشوت ستانی کے قانون کے تحت قریباً 11 ارب ڈالر جرمانے کیے ہیں۔ اس قانون کا نفاذ امریکی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ امریکی سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ غیرملکی کمپنیوں پر بھی ہوتا ہے۔

جرمن کمپنیوں کے مجموعے ‘سیمنز’ نے 2008 میں پانچ براعظموں میں واقع ممالک کے اہلکاروں کو رشوت دینے کے جرم میں، امریکی اور جرمن حکام کو 1.6 ارب ڈالر ادا کیے۔

گزشتہ ستمبر میں سویڈن کی ٹیلی مواصلاتی کمپنی ‘ٹیلیا’ نے ازبکستان میں بہت بڑے پیمانے پر رشوت دینے کی پاداش میں ایک تصفیے کے تحت امریکی اور ہالینڈ کے حکام کو 96 کروڑ 50 لاکھ  ڈالر ادا کیے۔

در حقیقت ہر بڑی امریکی کمپنی کا اپنا بھی ایک ضابطہ اخلاق ہے جو رشوت کی ممانعت کرتا اور ترسیل کنندگان نیز درمیانی عاملین سے اس ضمن میں احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ ریتھیان کمپنی نے اس حوالے سے اپنے رہنما اصول 15 زبانوں میں شائع کرتی ہے۔

گوگل کا ضابطہ کہتا ہے، “گوگل میں ہمارا اصول سادہ سا ہے: یعنی کسی کو کسی بھی وقت اور کسی بھی وجہ سے رشوت نہ دی جائے۔”

تاہم بعض ایسی جگہوں پر تاحال یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جہاں ٹھیکوں میں بد دیانتی سے لے کر کسٹم حکام کو رشوت دینے تک یہ برائی وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ عالمی بینک کا اندازہ ہے کہ ہر سال کاروبار اور افراد 1.5 کھرب ڈالر کی رشوت دتیے ہیں۔