امریکی کمیونٹیوں کا یوکرین کے تبادلے کے طلبا کی حمایت میں اکٹھا ہونا

میز پر رکھے سورج مکھی کے پھولوں کے قریب کھڑی دو لڑکیاں (© Connie Leinbach/Ocracoke Observer)
سونیا ووئٹینکو، دائیں طرف، شمالی کیرولائنا میں یوکرین سے تعلق رکھنے والی تبادلے کی طالبہ، مارچ کے مہینے میں یوکرین میں اپنے خاندان کے لیے چند اکٹھا کرنے کی ایک تقریب میں۔ (© Connie Leinbach/Ocracoke Observer)

جہاں یوکرین کے تبادلے کے طلباء امریکہ میں زندگی کے بارے میں سیکھ رہے ہیں وہیں وہ اپنے ملک میں جنگ کا سامنا کرنے والے اپنے پیاروں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

2021 – 2022 کا تعلیمی سال امریکی کمیونٹیوں میں گزارنے والے تبادلے کے اِن طلبا کو احساس ہے کہ وہ ایک بدلے ہوئے ملک میں واپس جائیں گے۔

یوکرین کی چار کم عمر نوجوان طالبات سے ملیے۔ وہ امریکہ میں ہائی سکول کہلانے والے ثانوی سکولوں میں پڑھ رہی ہیں۔ امریکہ کے محکمہ خارجہ کے مستقبل کے لیڈروں کے تبادلے [فلیکس] پروگرام کے تحت وہ ایک سال تک امریکی خاندانوں کے ساتھ رہیں گیں۔

انہوںنے اپنے ملک سے آنے والی خبروں کا سامنا کرنے میں مدد کرنے اور مثبت اثر ڈالنے کے لیے سکولوں میں اپنے ہم جماعتوں اور اپنی کمیونٹیوں کو بے تاب پایا۔

سونیا ووئٹینکو

اوپر تصویر میں دکھائی دینے والی سونیا ووئٹینکو کے لیے، 700 افراد پر مشتمل شمالی کیرولائنا کے ساحلی قصبے میں رہنا ایک نئی زندگی کی مانند ہے۔ اُن کا تعلق 260,000 آبادی والے یوکرینی شہر سومی سے ہے۔

اس نے اوکراکوکا آبزرور کو بتایا کہ شمال مشرقی یوکرین میں اس کا آبائی شہر روسی سرحد کے قریب ہے۔ ووئٹینکو کے والدین اور بہن نے شہر چھوڑ دیا ہے کیونکہ روسی فوجیوں نے اسے خارکیو اور کیئو تک پہنچنے کے لیے دروازے کے طور پر استعمال کیا۔

اُن کے ملک میں ایک رات پچھلے پہر حالات تبدیل ہو گئے۔

اس نے بتایا، “میں اپنے دوستوں کو ٹیکسٹ کر رہی تھی اور انہوں نے کہا، ‘میں مداخلت کرنے پر معذرت خواہ ہوں مگر جنگ اب شروع ہو چکی ہے۔’ “میں کانپ رہی تھی؛ میں بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ میں نے اپنے والدین کو فون کرنا شروع کر دیا۔”

 ہائی سکول کی باسکٹ بال ٹیم کی کھلاڑی لڑکیاں یوکرین کا جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں۔ (© Connie Leinbach/Ocracoke Observer)
‘ اوکراکوک لیڈی ڈولفنز’ نامی ٹیم کی کھلاڑی لڑکیاں 24 فروری کو اپنے فائنل میچ کے بعد یوکرین کی تبادلے کی طالبہ سونیا ووئٹینکو [سامنے والی قطار میں بائیں جانب] کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہی ہیں۔ (© Connie Leinbach/Ocracoke Observer)

16 سالہ ووئٹینکو اگست میں شمالی کیرولائنا کے آؤٹر بینکس کے ساحلی علاقے اوکراکوک پہنچیں تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ساحل سمندر، ماہی گیر برادری اور ہسپانوی ورثے کے اپنے نئے ماحول سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔

مارچ میں یہاں کی کمیونٹی نے یوکرین میں سونیا کے خاندان کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے ایک تقریب کا انعقاد کیا۔ سونیا کے میزبان امریکی خاندان نے ایک بینک میں اکاؤنٹ کھولا تاکہ سونیا اپنے خاندان کی مدد کے لیے عطیات وصول کر سکے۔

“اوکراکوک واقعی مدد کرنے والی جگہ بن چکی ہے۔”

ڈایانا ہیریسم

 یوکرین کی علامت والا ماسک پہنے ایک لڑکی۔ (© John S. McCright/Addison Independent)
ڈیانا ہیریسیم مڈل بری، ورمونٹ میں مڈل بری یونین ہائی سکول میں یوکرین سے تعلق رکھنے والی تبادلے کی ایک طالبہ ہے۔ (© John S. McCright/Addison Independent)

15 سالہ ڈیانا ہیریسم کا مستقبل میں فارن سروس میں کام کرنے کا ارادہ ہے۔ وہ یوکرینی، روسی اور انگریزی زبانیں  بولتی ہیں۔ اس کے علاوہ اُن کا ہدف ہسپانوی اور چینی زبانوں  بھی مہارت حاصل کرنا ہے۔

آجکل وہ مڈل بری، ورمونٹ میں امریکی زندگی کے بارے میں سیکھ رہی ہیں۔ مڈل بری میں وہ ایک میزبان خاندان کے ساتھ رہ رہی ہیں اور ہائی سکول میں پڑھتی ہیں۔

ہیریسیم نے ایڈیسن کاؤنٹی انڈی پنڈنٹ کو بتایا، “میں یہاں کی کمیونٹی کی واقعی شکر گزار ہوں۔”

یوکرین کے جنوب میں واقع  خیرسان سے تعلق رکھنے والی ہیریسم کو امید ہے کہ جب محفوظ طور پر ملک واپس جانا ممکن ہوا تو وہ یوکرین میں موجود اپنے والد اور بھائی کے ساتھ دوبارہ ملیں گیں۔

ہیریسیم پہلے ہی سے امریکی طلباء سے اپنے آبائی ملک میں زندگی کے بارے میں بات کر کے ایک غیر سرکاری سفیر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا، “یہاں میرا مشن لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ یوکرین میں کیا ہو رہا ہے۔  یوکرین ایک مضبوط ملک ہے۔ ہم لڑنے کے لیے تیار ہیں۔”

انہیلینا نیومرزیتسکا

 بائیں تصویر: تہہ کی ہوئی ٹی شرٹوں کے پاس اپنے ہاتھ کا انگھوٹا بلند کیے کھڑی ایک لڑکی۔ دائیں تصویر: پہاڑوں کے بیچ میں کھڑی ایک لڑکی (Courtesy of Anhelina Nevmerzhytska)
بائیں: برینرڈ، منی سوٹا میں انہیلینا نیومرزیتسکا ٹی شرٹوں کے پاس کھڑی ہیں۔ دائیں: نیومرزیتسکا یوکرین کے کارپیتھیئن پہاڑوں میں۔ (Courtesy of Anhelina Nevmerzhytska)

انہیلینا نیومرزیتسکا کی والدہ اور والد دونوں فوج میں ڈاکٹر ہیں اور اُن کا یوکرین چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

موریسن کاؤنٹی ریکارڈ کو نیومرزیتسکا نے بتایا ، “یہ بہت خوفناک ہے کیونکہ روس طرح طرح کی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنا رہا ہے۔” نیومرزیتسکا نے کہا کہ ان کے رشتہ دار جو کیف میں رہتے ہیں، وہ محفوظ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

اس کی وجہ سے فورٹ رپلے، منی سوٹا میں تبادلے کی یہ طالبہ، پولینڈ کے قریب شمال مغربی یوکرین کے دو لاکھ آبادی والے شہر لٹسک میں رہنے والے اپنے خاندان اور برادری کے لوگوں کی مدد کرنے کے طریقے تلاش کر رہی ہے۔

لہذا ایک ٹیچر کے تعاون سے اس نے اپنے ہموطن یوکرینیوں کی مدد کے لیے فنڈ جمع کرنے کی خاطر”سٹینڈ ود یوکرین” والی ٹی شرٹس تیار کیں ہیں جن کی فروخت سے ابھی تک 3,700 ڈالر کی رقم جمع ہوئی ہے۔ یہ رقم  یوکرین میں غیر منافع بخش تنظیموں کو بھیجی جائی گی۔ نیومرزیتسکا کا ارادہ ہے کہ جمع ہونے والی رقم کو وہاں بھیجا جائے جہاں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہو۔

اُن کا پروگرام ہے کہ لوگوں کو عملی قدم اٹھانے کی ترغیب دی جائے۔ “میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ لوگ [تماشائی] بن کر نہ کھڑے ہوں۔”

  سویتلانا نیروونیا

 ہائی سکول کی طالبات نے یوکرین کے جھنڈے تھام رکھے ہیں (Courtesy of CIVA Charter High School)
ویرونیکا ڈیمین تیوا، بائیں، اور سویتلانا نیروونیا، دائیں، یوکرین کے جھنڈے پکڑے ہوئے ہیں اور اُن کی ہم جماعت اُن سے محبت کا اظہار کر رہے ہیں۔ (Courtesy of CIVA Charter High School)

16 سالہ سویتلانا نیروونیا  کیف سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے قصبے زوریوکا میں رہنے والے اپنے خاندان کے بارے میں فکر مند ہے۔ کولوراڈو میں اس کے ساتھی طالب علم اس کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔

اُس نے بتایا کہ اُس کے ساتھی طلبا و طالبات نے سکول میں اُس کے لاکر کو سجایا اور سوشل میڈیا کے ذریعے پیغامات بھیجے۔ کولوراڈو سپرنگز گزٹ کو اُس نے بتایا، “اس سے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اکیلی نہیں ہوں۔”

نیروونیا اور تبادلے کی ایک اور یوکرینی طالبہ، ویرونیکا ڈیمین تیوا، دونوں کولوراڈو سپرنگز کے سی آئی وی اے چارٹر ہائی سکول  میں پڑھتی ہیں۔ سی آئی وی اے، کردار، دیانت، تصور اور آرٹس کے انگریزی الفاظ کے پہلے حروف کا مخفف ہے۔

سکول کی اسسٹنٹ پرنسپل، ایلیز رابنسن نے کہا، “ہمارے تمام طالبعلموں نے یکجہتی کے نظریے کو اپنایا ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں مددگار ثابت ہوئے ہیں اور ہمیں اُن پر فخر ہے۔”