امریکی کھیتوں میں چینی ورثے کے امین کسان

چنگے زو اپنی زندگی کے خواب کی تعبیر پانے کے لیے اپنی زرعی محقق اور پروفیسر کی پیشہ ورانہ زندگی کو خیر آباد کہہ کر 2016ء میں ریاست شمالی کیرولائنا کے قصبے ہرڈل ڈیل میں “ہوانونگ ایکواورگینک فارم” کے نام سے ایک زرعی فارم کھول کر کسان بن گئے۔

امریکہ کی زرعی خانہ شماری کے مطابق زو کا شمار حال ہی میں کاشت کاری کا پیشہ اپنانے والے ایشیا سے تعلق رکھنے  والے افراد کی ایک بڑی تعداد میں ہوتا ہے۔2007 اور 2017 کے درمیان ایشیائی اور ایشیائی نژاد امریکی شہریوں کی تعداد میں 21 فیصد اضافے کے ساتھ یہ تعداد 22,016 تک پہنچ گئی ہے۔ گو کہ وہ امریکہ کی ہر ایک ریاست میں کاشت کاری کرتے ہیں مگر کیلی فورنیا، ہوائی، ٹیکسس، اور فلوریڈا میں ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔

Man crouching by row of plants (Courtesy of Changhe Zhou)
چنگے زو ہرڈل ملز، شمالی کیرولائنا میں اپنے فارم پر کام کر رہے ہیں۔ (Courtesy of Changhe Zhou)

56 سالہ زو نے 1980 کی دہائی میں ووہان میں واقع  ہوازونگ زرعی یونیورسٹی سے گریجوایشن کی۔ یہ وہ دور تھا جب چینی حکومت طلبا کے تعلیمی اخراجات اٹھایا کرتی تھی۔ تاہم انہوں نے کون سا پیشہ اختیار کرنا ہے اس کا فیصلہ حکومت کرتی تھی۔ زو امریکہ کی وزارت زراعت کی پھلوں کی تجربہ گاہ میں کام کرنے کے لیے 2001ء میں امریکہ آئے۔ بعد میں انہوں نے ایک یونیورسٹی میں محقق کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔ اُن کے اہل خانہ اور اُن کے پاس گرین کارڈ ہے اور وہ امریکی شہری بننے کی تیاری کر رہے ہیں۔

کاشت کاری کے بارے میں زو کا کہنا ہے، “گو کہ یہ بہت مشکل اور گندہ کام ہے مگر ہے بہت دلچسپ۔ … میں اپنے گزشتہ 35 سال کے  دوران حاصل کردہ علم کو، ماضی میں کی گئی اپنی تحقیق کو، کاشت کاری میں استعمال کر سکتا ہوں۔ مجھے ہر دن نئی چیزوں کا پتہ چلتا ہے۔ یہ انتہائی خوشی کی بات ہوتی ہے۔”

Woman and man standing in tent by baskets of produce on table (Courtesy of Changhe Zhou)
چنگے زو اور اُن کی بیوی مورس وِل، شمالی کیرولائنا کی کسانوں کی مارکیٹ میں اپنی سبزیاں بیچ رہے ہیں۔ (Courtesy of Changhe Zhou)

ریاست شمالی کیرولائنا کے شہروں، کاربرو اور مورس وِل میں لگنے والی کسانوں کی مارکیٹوں میں زو نے ‘ لوفا توریوں’ کو گاہکوں کو متعارف کرانا شروع کیا۔ تیار ہونے کے بعد امریکہ میں اس سبزی کی لمبائی 61 سنٹی میٹر جب کہ کینیڈا میں اس سے دگنی ہوتی ہے۔

امریکہ میں چینی ورثے کے حامل بہت سے لوگ ہیں جو کاروباری کسانوں کی حیثیت سے پھل پھول رہے ہیں۔ 2017 میں ہونے والی زرعی خانہ شماری میں یہ بات سامنے آئی کہ 70 فیصد ایشیائی نژاد کسان زمین کے استعمال  یا بیجی جانے والی فصلوں کی اقسام کے فیصلے خود کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ 82 فیصد کسان کاشت کاری کا روزمرہ کا کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔

چینی سبزیاں اور کھان پکانے کی تراکیب

اس آزادی کی وجہ سے کسانوں کو چینی سبزیاں اگا کر اپنے ورثے کی ترویج  کرنے کا موقع ملتا ہے۔ سکاٹ چینگ فلی مین نے حال ہی میں کیلی فورنیا کی ویسٹ میرین کاؤنٹی میں ‘ شاؤ شان فارم’ کے نام سے ایک زرعی فارم شروع کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ فیصلہ کرنا کہ کیا کاشت کرنا ہے ایک توازن کا نام ہے۔ وہ سان فرانسسکو کے ریستورانوں کو ‘ گائی لین’  اور ‘ بوک چوئے’ نامی بالترتیب چینی بروکلی اور چینی بند گوبھی بیچتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ اس سے نامیاتی طور پر اگائی جانے والی چینی سبزیوں کی مارکیٹ میں اضافہ ہوگا۔ وہ روزمرہ کے استعمال کا سلاد بھی اگاتے ہیں جس سے انہیں اپنے کاروبار میں مدد ملتی ہے۔

25 سالہ چینگ فلی مین چینی تارکین وطن کی اولاد ہیں۔ اُن کے والدین کے والدین نے لاس اینجلیس میں پرچون اور سبزیوں کا کامیاب کاروبار کیا۔ وہ کہتے ہیں، “میں جو کچھ اگاتا ہوں اسے کے بارے میں میری سوچ روائتی ہوتی ہے۔ میں نے سردیوں میں کسانوں کے ساتھ تبادلہ خیالات کرنے میں بہت زیادہ وقت گزارہ تا کہ یہ جان سکوں کہ لوگ کیا خریدنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جاننے کے لیے کہ لوگ کتنی مہنگی چیز خریدنے کے لیے تیار ہیں میں کسانوں کی مارکیٹوں میں بھی جاتا رہا۔”

Smiling man in greenhouse holding basket of produce (Courtesy Scott Chang-Fleeman)
سکاٹ چینگ فلی مین نے ویسٹ میرین کاؤنٹی، کیلی فورنیا میں شاؤ شان فارم بنایا۔ (Courtesy Scott Chang-Fleeman)

‘لوکل روٹس این وائی سی’ نامی کاروبار کی مالکہ، وین جے یِنگ نیو یارک شہر میں تازہ سبزیاں فراہم کرتی ہیں۔ یِنگ بتاتی ہیں کہ چینی تارکین وطن کے بچوں کو مقامی طور پر اگائی جانے والی ایسی نامیاتی سبزیوں کی قِسمیں ڈھونڈنے میں دقت ہوتی ہے جو اُن کے والدین بچپن میں اُنہیں پکا کر کھلایا کرتے تھے۔ حال ہی میں یِنگ نے سلاد اور کڑاہیوں میں پکائی جانے والی سبزیوں میں استعمال ہونے والی ‘ گائی لین’ اور ‘ ہن سائی تائی’ نامی سبز پتوں والی سبزیوں کے ساتھ ساتھ دوسری سبزیاں بروکلین اور مین ہیٹن کے علاقوں میں اپنے گاہکوں کو فراہم کرنا شروع کی ہیں۔ یہ سبزیاں مقامی طور پراگائی جاتی ہیں۔

لیزلی وائیزر کے نزدیک خوراک نے انہیں ہمیشہ اُن کے چینی ورثے کے ناطے سے ایسے انداز سے جوڑا ہے جس کو دیکھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ کالج کے زمانے میں جب وہ تائیوان گئیں تو وہ اپنے رشتے داروں کے ہاں ٹھہریں جہاں پر انہوں نے اپنی نانی کی کھانے پکانے کی ترکیبوں کو اپنے پاس لکھ لیا اور لاکر اپنی والدہ کو دیا۔

42 سالہ وائیزر کا کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو کے شمال میں واقع سیبا سٹوپول میں ایک ہیکٹر کے 3/5  رقبے پر “ریڈیکل فیملی فارمز” کے نام سے ایک فارم ہے۔ جون میں اس فارم میں فصلیں کٹائی کے لیے تیار ہو جاتیں ہیں۔ اُن کی فصلوں میں چینی بند گوبھی، پائی سائی کی کئی ایک اقسام ہیں۔ اُن کی نانی اپنے کھانوں میں یہ سبزی استعمال کیا کرتی تھیں۔ وہ ہر سال اپنے دو بچوں کے ہمراہ تائیوان جاتی ہیں۔ اس دوران وہ نئی نئی چیزیں سیکھتی ہیں اور اُن چیزوں سے لطف ابدوز ہوتی ہیں جن سے اُن کا فارم بھرا پڑا ہے۔

وہ کہتی ہیں، “زبان سیکھتے ہوئے، رات کو سجنے والی مارکیٹوں سے خریداری کرتے ہوئے، مقامی طور پر اگائی جانے والی اشیائے خورد و نوش لیتے اور پکاتے ہوئے ہی وہ واحد طریقہ ہے جو اپنے ثقافتی ورثے کو زندہ رکھنے کے لیے میرے علم میں ہے: یعنی اشیائے خورد و نوش کے ذریعے۔”