ہو سکتا ہے کہ تھینکس گیونگ [یوم تشکر] کا تہوارامریکی کھانوں یعنی سیب کی پیسٹری (یا میٹھے کے طور پر پیش کی جانے والی کدو کی پیسٹری) کی طرح امریکی نہ دکھائی دے مگر حقیقت میں بات کچھی ایسی ہی ہے۔ تاہم اس میں صدیوں سے پوری دنیا میں منعقد ہونے والے موسم خزاں کے تہواروں کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔
اسی نوع کے سوکوٹ، چوسوک، یوم متوفین اور دیگر تہواروں کی مانند یوم تشکر کا مرکزی خیال بھی فصل کی کٹائی پر شکر ادا کرنا، خوراک کی بہتات سے لطف اندوز ہونا اور خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔ فصل کے تہواروں کی ابتدا زرعی دور میں ہوئی جب زندگی اور موت کا فیصلہ فصلوں کی پیداوار پر منحصر ہوتا تھا۔

ورجینیا کی جارج میسن یونیورسٹی میں مذہبی علوم اور تاریخ کے پروفیسر جان ٹرنر کہتے ہیں، ” اس وقت آپ فصل کو جمع کرنے کے بعد خوشی منانے کے ساتھ ساتھ ساری سردیوں کے لیے خوراک کے میسر ہونے اور فاقوں سے بچنے کا جشن بھی مناتے ہیں۔”
دیگر تہوراروں کے برعکس یوم تشکر کی بنیاد امریکہ میں ہی شروع ہونے والی ایک کہانی پر ہے۔ اس علاقے میں باہر سے اجنبی لوگ آئے اور یہاں کے مقامی ویمپانوگ قبیلے نے انہیں وہ فصلیں اگانا سکھائیں جن کی انہیں زندہ رہنے کے لیے ضرورت تھی۔ 1621 میں اس علاقے میں نئے نئے آنے والوں اور ویمپانوگ قبیلے کے افراد نے اکٹھے مل کر یوم تشکر کا کھانا کھایا۔ اسے یوم تشکر کا پہلا کھانا سمجھا جاتا ہے۔ امریکی حالیہ برسوں میں ویمپانوگ قبیلے کی خدمات کے بارے میں زیادہ حساس ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ کھانا انگریز آباد کاروں اور ویمپانوگ اور دیگر مقامی قبائل کے درمیان تعلقات کی مکمل نمائندگی نہیں کرتا۔ اس کھانے کے بعد قبائل کے دیگر یورپین کے ساتھ تقریباً 100 سال کے رابطے اور تصادموں اور بیماریوں کے نتیجے میں بہت سارے قبائل کا نام و نشان مٹ گیا۔
ٹرنر بتاتے ہیں کہ یوم تشکر کے پہلے کھانےکے دوران بھی آباد کاروں اور آبائی لوگوں کو ایک دوسرے پر اعتماد نہیں تھا۔
سمتھسونین کے نیشنل میوزیم آف دی امریکن انڈین (پی ڈی ایف، 4.3 ایم بی) کے مطابق، “1675 تک تعلقات بگڑ کر تصادم اور جنگ کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ اس کے بعد آنے والے دو سو برسوں تک آبائی اور غیر آبائی افراد کے درمیان تعلقات کی تاریخ ایسی ہی رہی۔”
دوسرے ممالک کی طرح امریکی بھی صدیوں سے وقتاً فوقتاً اس وقت جشن مناتے رہے جب موسم خزاں میں فصل کی پیداوار بہت زیادہ ہوتی تھی۔ اسی طرح وہ اپنی زندگیوں میں برکت کے لیے خشک سالی کے خاتمے، بیماری کے بعد صحت یابی یا جنگ میں فتح جیسے “شکریے” کے مذہبی دن بھی مناتے رہے-
لنکن کی صدارت اور خانہ جنگی کے دوران 1863 میں یوم تشکر کو قومی تعطیل قرار دیا گیا۔ اوہائیو کے بولنگ گرین میں کھانوں اور ثقافت کے سنٹر کی ڈائریکٹر، لوسی لانگ کہتی ہیں کہ اس دن کا مقصد “امریکہ کا جشن منانے کے لیے اس[تہوار] کو متحد ہونے کی ایک رسم بنانا تھا۔”

ذیل میں یوم تشکر سے ملتے جلتے کچھ عالمی تہواروں کے بارے میں بتایا جا رہا ہے:-
- کوریا میں وسیع پیمانے پر موسم خزاں میں منایا جانے والا تہوار، “چوسوک” فصل کی کٹائی کا تہوار ہے جس میں خرمالو، شاہ بلوط اور سونگ پیون نامی چاول کے کیک جیسے کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔ لانگ کہتی ہیں، “یہ اسی طرح کی کھانے کی موسمی اشیا ہیں جس طرح کہ ہمارے ہاں امریکہ میں کدو، مکئی اور سیب ہوتے ہیں۔” تین دنوں پر پھیلے اس تہوار کے دوران جنوبی کورین اپنے گھر والوں سے ملنے کے لیے اپنے اپنے آبائی علاقوں میں جاتے ہیں۔ امریکہ کی طرح سفری لحاظ سے مقامی طور پر بھی یہ سال کا مصروف ترین دن ہوتا ہے۔
- میکسیکو میں یوم متوفین کا آغاز ایزٹیک روایت کی حیثیت سے ہوا مگر اب یہ کیتھولک کے ‘روحوں’ کے دن کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ خاندان کے لوگ اکٹھا وقت گزارتے ہیں اور اپنے آباؤ اجداد کی تکریم اور ان سے جڑنے کے لیے کھانوں کے چڑہاوے چڑہاتے ہیں۔
- یونیورسٹی آف اوریگون میں لوک ورثے کی لیکچرر ریچیل “ریکی” سالٹزمین بتاتی ہیں کہ پوری دنیا میں یہودی بائبل کے دور کے اسرائیلیوں کے دہائیوں بیابانوں میں گزارنے کی یاد مناتے ہیں۔ یوم تشکر کی طرح سوکوٹ پر بھی فصلوں کی کٹائی اور ماضی کا جشن منایا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں، “یہ [تہوار] بتاتا ہے، ‘ہم بحیثیت قوم کس طرح کے لوگ ہیں۔'”

ٹرنر کا کہنا ہے کہ آج کے امریکی یوم تشکر کو اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ وقت گزارنے کے دن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ وہ پریڈیں اور فٹ بال کے میچ دیکھتے ہیں، چھٹیوں سے پہلے لگنے والی سیلوں میں خریداری کرتے ہیں، خیراتی اداروں کو عطیات دیتے ہیں اور گھروں میں کی جانے والی دعوتوں میں شریک ہوتے ہیں۔ امریکی “کٹھالی” میں بہت سے تارکین وطن خاندان اپنے روایتی کھانے (جیسے لاؤ چاول اور اینچے لاڈاس) لاتے ہیں اور انہیں روایتی ٹرکی اور سبزیوں کے ساتھ اپنے مہمانوں کو پیش کرتے ہیں۔ اس تہوار کی “روح” خاندان ہے۔