کلاس روم میں طالب علم آپس میں باتیں کر رہے ہیں۔ (Courtesy of Nikita Ankem)
پینسلوینیا سٹیٹ یونیورسٹی میں انجنئیرنگ کے ان گریجویٹ طلبا میں بھارت کی دیوا یانی بورسے (چشمہ لگائے ہوئے) سمیت، بہت سے بین الاقوامی طالب علم شامل ہیں۔ (Courtesy photo)

سائنس، انجنئیرنگ اور ریاضی کے مضامین میں بھارت سے آنے والے گریجویٹ طلبا کے  روزافزوں اضافے کے باعث، امریکہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پہلی بار بین الاقوامی طلبا کی تعداد د 10 لاکھ سے تجاوز کر گئی  ہے۔

چین اب بھی سب سے زیادہ طالب علم امریکہ بھیجتا ہے۔ چینی طالب علموں کی تعداد 328,500  ہے جو مجموعی بین الاقوامی طالب علموں کی تعداد کا تقریباً ایک تہائی ہے۔ تاہم  2015 -2016 کے تعلیمی سال میں بھارت سے آنے والے طلبا کی تعداد میں 25  فیصد اضافہ ہوا جس سے ان کی کل تعداد تقریباً 166,000  ہو گئی۔

ناگ پور، بھارت کی نکیتا انکم پینسلوینیا سٹیٹ یونیورسٹی سے انڈسٹریل انجنئیرنگ میں ماسٹر کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ملک لوٹ کر جب ملازمت تلاش کریں گی تو ان کی پینسلوینیا سٹیٹ یونیورسٹی کی ڈگری کو ترجیح حاصل ہوگی۔

پینسیلوینیا سٹیٹ یونیورسٹی میں انڈین گریجویٹ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے ویب  کی رابطہ کار، انکم کا کہنا ہے، “بھارت میں بیشتر تعلیم کی نوعیت کتابی ہوتی ہے۔ ہم ریاضی میں بہت اچھے ہیں۔ یہاں آپ بہت سے کیسوں کے مطالعے میں، مسائل کو حل کرنے اور ٹیم پروجیکٹوں  کے دوران تمام کتابی علم کا عملی استعمال سیکھتے ہیں۔”

سعودی عرب، جنوبی کوریا سے تھوڑا سا آگے نکل کر تیسرے نمبر پر آگیا ہے۔ دونوں ملک لگ بھگ 61,000 طلبا کو تعلیم کے لیے امریکہ بھیجتے ہیں۔ کینیڈا 29,000  طلبا کے ساتھ  پانچویں نمبر پر ہے۔

یہ اعداد و شمار اوپن ڈورز2016 کے نام سے محکمہ خارجہ کی شراکت داری کے ساتھ انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل ایجوکیشن کی جانب سے کی جانے والی سالانہ مردم شماری سے لیے گئے ہیں۔ مردم شماری کی رپورٹ کا اجراء اس  بین الاقوامی تعلیم کے ہفتے کی ایک خاص بات ہے، جس کے دوران امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اندرون ملک اور بیرونی ممالک میں واقع سینکڑوں کیمپسوں پر تعلیمی میلوں اور فیسٹیولز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

انفو گرافکس جس میں امریکہ میں بین الاقوامی طلبا کی بڑھتی ہوئی تعداد اور ان کی پڑھائی کے شعبے دکھائے گئے ہیں۔ (Open Doors 2016, Institute of International Education)
(Open Doors 2016, Institute of International Education)

گذشتہ عشرے کے دوران امریکہ میں بین الاقوامی طلبا کی تعداد میں تقریباً پانچ لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طلبا کی مجموعی تعداد 2 کروڑ 3 لاکھ ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ملک اتنی بڑی تعداد میں یونیورسٹی کی سطح پر غیرملکی طالب علموں کے لیے اس قدر کشش نہیں رکھتا۔

ان میں نصف سے زیادہ طلبا انجنئیرنگ، بزنس، ریاضی  اور کمپیوٹر سائنس کی ڈگریوں کے لیے تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ سائنس، ٹیکنالوجی، انجنئیرنگ اور ریاضی کی ڈگریوں کے حامل گریجویٹ، واپس وطن جانے سے پہلے 29 مہینوں تک امریکہ میں کام کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے مضامین کے گریجوایٹ 12 مہینے کام کر سکتے ہیں۔

محکمہ خارجہ کے تبادلے کے پروگراموں کے بیورو کی سربراہ، ایوان ریان کا کہنا ہے، “ہمیں تمام ملکوں میں نوجوانوں کی یہ حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے ملکوں سے باہر، تبادولوں کے مواقعے تلاش کریں۔  ہم بین الاقوامی تعلیم کو معاشروں اور دنیا کو زیادہ محفوظ اور زیادہ روادار بنانے  کے کام کا ایک لازمی جزو سمجھتے ہیں۔”

امریکہ کی 250 سے زیادہ ایسی یونیورسٹیوں ہیں جن میں سے ہر ایک یونیورسٹی میں 1,000 سے زائد تعداد میں بین الاقوامی طالب علم تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ان میں پہلے نمبر پر نیویارک یونیورسٹی (15,500) اور دوسرے نمبر پر یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا (13,300) ہے۔

چین، بھارت، سعودی عرب، ویت نام، تائیوان، ایران، برطانیہ، نیپال، نائجیریا، کویت، فرانس، انڈونیشیا، وینیزویلا، ملائشیا، کولمبیا، اور سپین سمیت تمام ممالک نے پچھلے سال کی نسبت زیادہ طالب علم امریکہ بھیجے۔

انسٹی ٹیوٹ کے صدر ایلن گُڈ مین نے بتایا کہ بین الاقوامی طلبا “امریکہ کے تعلیمی اداروں کے معیار، تنوع اور مستحکم شہرت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔” انہوں نےکہا  کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ “ہمیں ہماری ساجھی دنیا کے بارے میں بہت کچھ سکھاتے بھی ہیں۔ ہم دوسری ثقافتوں  کے لیے اپنے دروازوں کو جتنا زیادہ کھول سکتے ہیں اتنا زیادہ کھولیں  … اس سے ہمارے ملک اور ہماری دنیا اتنے ہی زیادہ بہتر ہوں گے۔”