امریکی یونیورسٹیوں میں چیپلن طلبا کی مدد کرتے ہیں خواہ ان کا کوئی مذہب ہو یا نہ ہو [ وڈیو ]

Haokun Duan seated next to shelves of books (Courtesy of Haokun Duan)
ہاؤکن دوان (Courtesy photo)

جب چینی طالبعلم ہاؤکن دوان نےامریکہ میں قانون کی تعلیم کے سکولوں کے لیے درخواستیں بھیجیں تو اسے یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا (یو ایس سی ) میں ایک ایسی چیز کا پتہ چلا جس کی اسے توقع نہیں تھی: مذہبی زندگی کا ایک دفتر۔

25 سالہ دوان نے کہا، ” ٹھیک اسی وجہ سے میں نے یو ایس سی کا انتخاب کیا۔” انہوں نے یہاں پر کنفیوشس کلب قائم کیا۔ وہ اس وقت ماسٹرکی ڈگری مکمل کر رہے ہیں جس کے بعد اُن کا چین واپسی کا پروگرام ہے اور وہ وہاں جا کر وکالت کرنے کی بجائے کنفیوشس اِزم کی تعلیم دیں گے۔

ماضی میں اگرچہ بہت سی نجی یونیورسٹیاں کسی نہ کسی مخصوص مذہبی فرقے سے وابستہ ہوتی تھیں۔ مگر آج یہ بات اتنی عام نہیں رہی۔ اس کے باوجود، بہت سی غیر وابستہ یونیورسٹیوں میں چیپلن اور مذہبی زندگی کے دفاتر موجود ہیں جن کے دروازے تمام عقیدوں کے طلبا کے لیے کھلے ہوتے ہیں –  بلکہ اُن طلبا کے لیے بھی جن کا سِرے سے کوئی عقیدہ ہی نہیں ہوتا۔

چیپلن، طلبا کے درمیان بین المذاہب مکالمے کراتے ہیں، خدمت عامہ کے منصوبوں کا بندوبست کرتے ہیں، ذاتی مشکلات کے موقعوں پر دوستانہ مشورے دیتے ہیں اور زندگی سے متعلق بڑے بڑے سوالوں پر غور وخوض کرنے میں طلبا کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

Rabbi Dena Bodian (Courtesy of Rabbi Dena Bodian)
ربائی ڈینا بوڈین (Courtesy photo)

کولگیٹ یونیورسٹی کی ایسوسی ایٹ چیپلن اور نیشنل ایسوسی ایشن آف کالج اینڈ یونیورسٹی چیپلنز کی صدر، ربائی ڈینا بوڈین کہتی ہیں، ” چیپلن کا کام اپنی ذاتی یا کسی اور کی عبادات سے کہیں زیادہ بڑھکر ہوتا ہے۔ ”

بوڈین کہتی ہیں، “ہم ان طلبا سے ملتے ہیں جنہیں گھر کی یاد ستاتی ہے، جن کے والدین کو مشکلات کا سامنا ہوتا ہے، جن کا اپنے شریک حیات سے رشتہ ٹوٹ رہا ہوتا ہے یا ایک ہی کمرے میں اکٹھا رہنے والوں سے جھگڑا ہو رہا ہوتا ہے  — یا کوئی بھی ایسا مسئلہ جس کا آپ تصور کرسکتے ہوں۔”

لاس اینجلیس کے نواح  میں کلیئر مونٹ کالجز میں مسلم چیپلن، امام عدیل زیب کا کہنا ہے، ” میں ایک لادینی ادارے میں روحانی لیڈر ہوں۔ میں اپنے اسلامی عقیدے کو بروئے کار لاتا ہوں اور اپنی [اسلامی] روایات میں یہ تلاش کرتا ہوں کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ کس طرح محبت، احترام اور شفقت کے ساتھ پیش آیا جائے۔”

Imam Adeel Zeb (Courtesy of Imam Adeel Zeb)
امام عدیل زیب (Courtesy photo)

ایک ایسے ملک میں جہاں مذہب اور ریاست کو سختی کے ساتھ ایک دوسرے سے الگ رکھا گیا ہے، سرکاری یونیورسٹیوں میں مذہبی دفاتر اتنے عام نہیں ہیں۔

لیکن پین سٹیٹ یونیورسٹی میں روحانی اور اخلاقی  نشوونما کا ایک بہت ہی مصروف مرکز ہے۔ اس مرکز میں تمام مذاہب کے لیے ایک ایسا عبادت خانہ ہے جس میں ہر ہفتے، ہزاروں کی تعداد میں طلبا آتے ہیں۔

مرکز کے ڈائریکٹر رابرٹ سمتھ کا کہنا ہے، ” ہمارے ہاں اپنی قسم کا ملک میں سب سے بڑا کثیرالمذہبی مرکز ہے۔” ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ کسی دوسرے سرکاری ادارے میں آپ کو شاذ و نادر ہی ملے گا۔ ” اس مرکز کو ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے نہیں بلکہ اسے زیادہ تر تحائف میں ملنے والی رقوم سے چلایا جاتا ہے۔

سمتھ کا مزید کہنا ہے، ” ہمارا خیال ہے کہ ہم ہر شخص کے لیے گنجائش پیدا کرتے ہوئے، یہ  کام صحیح  طریقے سے کر رہے ہیں۔ ہم نے مسلمان طلبا کے لیے وضو کی سہولت  فراہم کرنے کے علاوہ مکہ مکرمہ کی سمت میں ایک  جگہ بھی مخصوص کردی ہے تا کہ انہیں پتہ چل سکے کہ نماز کہاں اور کدھر رُخ کرکے پڑھنی ہے۔

یو ایس سی کے 11،000 بین الاقوامی طلبا ” اکثر یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ ہمارے پاس انہیں پیش کرنے کے لیے کیا کچھ ہے اور ایک چیپلن کسی ایسے وقت میں اُن کا کس طرح  دوست بن سکتا ہے، جب ممکن ہے انہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہو۔” یہ الفاظ مذہبی زندگی کے ڈین، ورون سونی کے ہیں، جو کسی بھی امریکی یونیورسٹی میں اوّلین ہندو روحانی لیڈر ہیں۔

سونی کا کہنا ہے، ” ہم یہ تصورعام کرتے ہیں کہ ہر شخص کو مذہبی طور پر خواندہ ہونا چاہیے۔ یہ ایک المیہ ہوگا کہ لوگ ہماری جیسی کسی یونیورسٹی میں آئیں، اور دنیا میں دوسرے بہت سے مذاہب کے بارے میں کچھ جانے بغیر واپس چلے جائیں۔”