امریکی یونیورسٹیوں کی یوکرینی طلبا کی مدد

یوکرین کے شہر خارکیو سے تعلق رکھنی والیں مایا بونڈارینکو بتاتی ہیں کہ گزشتہ برس روس کے اِن کے ملک پر کیے جانے والے حملے سے پہلے وہ ایک لاپرواہ نوعمر لڑکی ہوا کرتیں تھیں اور پالتو جانوروں کی مقامی پناہ گاہ میں رضاکارانہ طور پر کام کیا کرتی تھیں اور اپنے فارغ وقت میں موم بتیاں بنایا کرتی تھیں۔

جنگ شروع ہونے کے بعد وہ بزرگ شہریوں میں کھانا تقسیم کرنے کے علاوہ نوعمروں کی نفسیاتی مدد کرنے والی ایک غیرمنفعتی تنظیم کے ساتھ رضاکارانہ طور پر کام کر چکی ہیں۔ انہوں نے شیئر امریکہ کو بتایا کہ “اِن کاموں کے ذریعے میں نے اپنے اندر ایک ایسی نئی قوت اور لچک دریافت کی ہے جسے جنگ نہیں توڑ سکتی۔”

چار تصاویر کا مجموعہ جن میں ایک نوجوان خاتون امدادی سامان تقسیم کر رہی ہے (Courtesy of Maya Bondarenko)
مایا بونڈارینکو 2022 میں خارکیو میں بزرگ لوگوں میں کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ “جیسا کہ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ صورت حال بہت زیادہ خراب تھی۔” (Courtesy of Maya Bondarenko)

بونڈارینکو  کا شمار یوکرین کے اُن چار طلبا میں ہوتا ہے جو اس سال اگست میں پنسلوانیا کے ڈکنسن کالج میں اپنی تعلیم کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔ ایک نئے سکالرشپ پروگرام کے تحت اُن کے تمام اخراجات پورے کیے جائیں گے۔ ڈکنسن کالج کے ایک سابق طالبعلم، سیم روز کے یوکرین کے شہر کیف میں پیدا ہونے والے دادا نے اِن سکالرشپس کی فنڈنگ کے لیے 20 لاکھ ڈالر کا عطیہ دیا ہے۔

امریکہ بھر کے کالج اور یونیورسٹیاں یوکرین کے طلباء کی مدد کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی تعلیم کا انسٹی ٹیوٹ (آئی آئی ای) ایک غیرمنفعتی ادارہ ہے۔ اس ادارے کے مطابق جنگ کے آغاز کے بعد سے اس کے ‘ایمرجنسی سٹوڈنٹ فنڈ’ پروگرام کے تحت 140 سے زائد امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں نے یوکرین کے 230 سے زائد طلبا کی مدد کی ہے تاکہ یہ طلبا اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

یونیورسٹی آف نیو ہیون، کنیٹی کٹ

کیتھرینا فیڈرکو کے لیے کنیٹی کٹ کی نیو ہیون یونیورسٹی میں اپنی کلاسیں شروع کرنا ایک طویل سفر کا حصہ ہے۔

انہوں نے فروری 2022 کے حملے کے فوراً بعد یوکرین کے شہر اوڈیسہ میں اپنے گھر والوں کو چھوڑا اور تبادلے کے ایک پروگرام کی طالبہ کی حیثیت سے ایستونیا جا کر اپنا ایک تعلیمی سال مکمل کیا۔

اب وہ یونیورسٹی کے یوکرینی طلبا کے لیے سکالر شپ کے نئے پروگرام کے تحت امریکہ میں اپنی تعلیم کا آغاز کرنے والیں پہلی طالبہ ہیں۔ فیڈرکو انٹرنیشنل بزنس میں سال اول کی طالبہ ہیں۔ سکالرشپ کے اس پروگرام کے تحت اُن کی فیس، رہائش، اور سفر کے تمام اخراجات ادا کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے این بی سی کنیٹی کٹ کو بتایا کہ “میں حقیقی معنوں میں خوش ہوں۔ لوگ بہت زیادہ دوستانہ، فراخ دل اور مدد کرنے والے ہیں۔”

یونیورسٹی آف آئیووا

اوکسانا ہرچک آئیووا یونیورسٹی کی طالبہ ہیں اور وہ یوکرین کی معاصر تاریخ کو دستاویزی شکل دے رہی ہیں۔ انہوں نے اپنے آبائی شہر میں کان کنوں اور 2014 کے میدان انقلاب میں حصہ لینے والوں کی کہانیوں کو اکٹھا کیا۔ یہ انقلابِ وقار کے نام سے بھی مشہور ہے۔ وہ ذہنی امراض کا علاج کرنے والی تھیراپسٹ بننا چاہتی ہیں تاکہ وہ جنگ سے متاثر ہونے والے لوگوں کے ساتھ کام کر سکیں۔

ہرچک کا شمار بین الاقوامی تعلیم کے انسٹی ٹیوٹ کے ‘گلوبل ڈیموکریسی ایمیسیڈرشپ’ نامی سکالر شپ حاصل کرنے والے یوکرین کے 20 طلبا میں ہوتا ہے۔ اِس سکالرشپ کے اجرا میں شیف ہوزے اینڈرس، سرگرم کارکن گیری کاسپوروف، تاجر ڈینیئل لوبیٹزکی اور امریکی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹننٹ کرنل الیگزینڈر وِنڈمین نے مدد کی۔

ہرچک نے کہا کہ “گو کہ امریکی ثقافت کے بارے میں بہت سی چیزیں سیکھنا ابھی باقی ہیں مگر مجھے ایسا نہیں لگتا کہ میں امریکہ میں ایک اجنبی ہوں۔”

یونیورسٹی کی عمارتوں کا ایک تصویری خاکہ جن پر یہ عبارت تحریر ہے:" 140 سے زائد امریکی کالج اور یونیورسٹیاں یوکرینی طلباء کو اپنی تعلیم جاری رکھنے میں مدد کر رہے ہیں۔ (24 فروری 2022 سے) " (گرافک: State Dept./M. Gregory تصویر: © David Harmantas/Shutterstock.com)
(State Dept./M. Gregory)

ویسٹ ورجنیا یونیورسٹی

مارک ووڈیانی کا تعلق کیف سے ہے۔ انہوں نے بھی آئی آئی ای کا ‘ڈیموکریسی ایمبیسیڈر سکالرشپ” حاصل کیا ہے اور اب وہ  ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے بعد وہ فوجداری قانون کے شعبے میں تعلیم حاصل کرکے یوکرینیوں کے خلاف کیے جانے والے جنگی جرائم کے مرتکب فوجیوں پر مقدمات چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

وہ اپنے ملک کی تعمیر نو میں مدد کے لیے یوکرین واپس جانا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُن پر “پیشہ ورانہ اور اخلاقی لحاظ سے ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔” ووڈیانی یوکرین کی مدد کے لیے یونیورسٹی کے  کیمپس پر کیے جانے والے خیراتی پروگراموں کو سراہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ “میں (یونیورسٹی)، امریکہ، اور دیگر ممالک کی جانب سے یوکرین کی  فراواں مدد  کرنے پر مشکور ہوں۔  یہ بہت حیرت انگیز ہے۔”