پرنسٹن یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے طلبا کو اپنی شناختوں کو چھپانے کی خاطر چینی کمیونسٹ پارٹی یا سی سی پی کی جانب سے متنازعہ سمجھے جانے والے موضوعات پر بحث کرتے وقت خفیہ نام استعمال کرنے کی اجازت دی۔ روزنامہ وال سٹریٹ جنرل کے مطابق یہ پروفیسر اکیلے نہیں ہیں۔
ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
امریکی یونیورسٹیاں غیر ملکی طالبعلموں کو اپنے کیمپسوں پر سی سی پی کی آمرانہ پہنچ سے محفوظ رکھنے کے لیے جو اقدامات اٹھا رہی ہیں خفیہ نام اُن میں سے ایک اقدام ہے۔
روری ٹروایکس پرنسٹن یونیورسٹی میں چینی سیاست پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے وال سٹریٹ جنرل کو بتایا، “ہم اپنے آپ کو سنسر نہیں کرسکتے۔ اگر ہم پڑھانے والی ایک چینی برادری کی حیثیت سے، تیاننمن یا شنجیانگ یا کوئی بھی ایسا حساس موضوع جس کے بارے میں چینی حکومت چاہتی ہے کہ ہم بات نہ کریں اور اُن کے دباؤ میں آ جائیں تو پھر (جان لیں کہ) ہم ہار گئے۔”
امریکہ کی تعلیمی آزادی کے ساتھ طویل وابستگی، دنیا بھر کے طالبعلموں کو امریکی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کرتی ہے۔
2019ء میں امریکہ نے 370,000 سے زائد چینی طالبعلموں کو اپنے ہاں خوش آمدید کہا۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔
تاہم، تعلیمی اداروں کی ایک روزافزوں تعداد یہ ضروری سمجھتی ہے کہ اُن کے کیمپسوں پر موجود ان قابل قدر لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے نئی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں کیونکہ سی سی پی کی جانب سے اپنی سرحدوں سے باہر بھی تعلیمی آزادی کو لاحق خطرات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ نومبر میں عوامی جمہوریہ چین میں ایک عدالت نے ایک 20 سالہ شہری کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی کیونکہ اُس نے منیسوٹا یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ٹویٹس پوسٹ کیں تھیں۔
The Confucius Institutes are part of the CCP’s propaganda apparatus and we will not permit them to exploit the openness of American society and our schools. https://t.co/HNEDv0bFSF
— Under Secretary Keith Krach (@State_E) August 13, 2020
امریکی حکام اور طلباء گروپ یونیورسٹیوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ سی سی پی کے دباؤ، اور بالخصوص کنفیوشس انسٹی ٹیوٹوں کے ذریعے ڈالے جانے والے دباؤ کے خلاف تعلیمی آزادی کا دفاع کریں۔ یہ انسٹی ٹیوٹ اپنے آپ کو ثقافتی مراکز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اس کے برعکس یہ سی سی پی پر کی جانے والی تنقید پر نظر رکھتے ہیں اور ریاستی سرپرستی میں کیے جانے والے پروپیگنڈے کو عام کرتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ میں معاشی ترقی، توانائی اور ماحولیات کے انڈر سیکرٹری، کیتھ کریچ نے 18 اگست کے ایک خط میں امریکی کالجوں اور یونیورسٹیوں کے منتظمین سے کہا کہ وہ تعلیمی آزادی کو یقینی بنانے، انسانی حقوق کا احترام کرنے، اپنی یونیورسٹیوں کی خصوصیات کا تحفظ کرنے اور املاکِ دانش کی حفاظت کرنے سمیت سی سی پی کے، بشمول کنفیوشس انسٹی ٹیوٹوں کے آمرانہ اثر رسوخ کا جائزہ لیں۔
امریکہ نے حال ہی میں واشنگٹن میں واقع کنفیوشس انسٹی ٹیوٹوں کے امریکی صدر دفتر کو غیر ملکی مشن کے طور پر نامزد کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس گروپ کو اب اپنے مالی ذرائع، اہلکاروں اور سرگرمیوں کے بارے میں بتانا ہوگا تاکہ امریکہ میں ایک غیر ملکی حکومت کے زیرانتظام چلنے والے ادارے کی حیثیت سے اس کے کردار کے بارے میں شفافیت میں اضافہ کیا جاسکے۔
کریچ کہتے ہیں کہ جب ایک بار یہ معلومات دستیاب ہو جائیں گیں تو ان سے یونیورسٹیوں کو اپنے کیمپسوں پر سی سی پی کے اثرو رسوخ کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملنے کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں کو اپنے طالبعلموں کو تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں حقائق پر مبنی فیصلے کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
انہوں نے مزید کہا، “ہمارا مقصد ایک ایسا بہتر، کھلا اور شفاف ماحول پیدا کرنا ہے جس میں امریکی اور چینی علمی ماہرین زیادہ سے زیادہ بھروسے کے ساتھ مل جل کر کام کر سکیں۔
کریچ نے یونیورسٹیوں پر پی آر سی کی تحقیق اور املاکِ دانش کی چوری کے خلاف دفاع کرنے اور یہ یقینی بنانے پر زور دیا کہ یونیورسٹیوں کے فنڈز سے ایسی کمپنیوں میں سرمایہ کاری نہ کی جائے جو شنجیانگ میں پی آر سی کے دس لاکھ سے زائد ویغوروں اور دیگر اقلیتوں کی حراستوں میں تعاون کرتی ہیں۔
کالج ری پبلکن نیشنل کمیٹی کے قائدین اور امریکہ کے کالج ڈیموکریٹس کے ممبران سمیت، گروپوں کے ایک اتحاد نے بھی تعلیمی آزادی کے زیادہ سے زیادہ تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔ اس اتحاد کا کہنا ہے کہ کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ امریکہ کے کالج کیمپسوں پر ایسے موضوعات پر بحث کو سنسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جنہیں عوامی جمہوریہ چین حساس سمجھتا ہے۔
اس اتحاد نے 13 مئی کے ایک بیان میں کہا، “چینی حکومت کی امریکہ کی اور پوری دنیا کی یونیورسٹیوں میں ہونے والے بحث مباحثوں میں ڈرانے دھمکانے اور انہیں کنٹرول کرنے کی کھلم کھلا کوششوں سے اُس علمی آزادی کے وجود کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں جسے ہم جانتے ہیں۔”
“یہ ایک شہری اور اخلاقی ضرورت ہے کہ ہم اُس آزادی کا تحفظ کریں۔”