امریکی یونیورسٹیوں کے طلبا کی کرہ ارض کے تحفظ کے لیے جدوجہد

آٹھ افراد کا گروپ فوٹو (Courtesy of Jenny Hudak/University of Miami)
میامی یونیورسٹی کے طلباء کو کاربن ہٹانے والی ٹیکنالوجی تیار کرنے پر مسک فاؤنڈیشن کا انعام ملا۔ اوپر بائیں طرف گھڑی کی سوئیوں کی سمت میں: ڈریو رِچ، کرِس لینگڈن، انور خان، زیک برکووٹز، نینسی لیوئس، لارا سٹیگہورسٹ، ایسابیل فِٹرز پیٹرک اور ایڈن لیڈر۔ (Courtesy of Jenny Hudak/University of Miami)

امریکی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبا اور طالبات کرہ ارض کے تحفظ کے لیے اختراعی منصوبے تیار کر رہے ہیں۔

امریکہ میں طلبا کو سائنس، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے بعض ذہین ترین افراد سے سیکھنے کے مواقع ملتے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یونیورسٹیوں میں اور یونیورسٹیوں سے باہر بہت سی موسمیاتی اختراعات ہیں۔

نجی کمپنیاں طلبا کے لیے انعام مقرر کرتی ہیں

جب مسک فاؤنڈیشن نے فضا سے سالانہ ایک ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کو الگ کرنے کے  پراجیکٹ کے لیے تجاویز مانگیں تو میامی یونیورسٹی کے طلباء نے بھی اپنی تجاویز بھیجیں۔

آخری سال کی طالبہ لارا سٹیگہورسٹ نے موسم بہار میں ‘ سپیس ایکس 2021 ‘ کی روانگی کا مشاہدہ کرنے کے بعد اس پراجیکٹ کے بارے میں سنا۔ انہوں نے کیلی فورنیا یونیورسٹی، سانتا کروز کے سمندری سائنسوں کے ادارے کے سینئر محقق اور کاربن کو فضا سے نکالنے کے ماہر، گریگ راؤ سے رابطہ کیا تاکہ میامی یونیورسٹی کے طلباء کی ٹیم کو ایک قابل عمل ماڈل تیار کرنے اور تحقیقی تجویز لکھنے کے لیے اکٹھا کیا جا سکے۔

انہوں نے کیا حل تجویز کیا؟  سمندر سے کاربن علیحدہ کرنے کے لیے پانی میں حل ہونے والی گولیاں۔ نومبر2021 میں وہ پانچ لاکھ ڈالر کا انعام جیتنے والے پانچ طالب علموں میں شامل تھیں۔

سٹیگہورسٹ نے میامی یونیورسٹی کو بتایا، “مجھے اس حل پر اتنا اعتماد تھا کہ میں تصور میں ایسا ہوتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ لیکن ہم نے جو کچھ کیا وہ خیالی تھا۔ لہذا، اب ہمیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ یہ خیال حقیقی دنیا میں قابل عمل ہے اور اس کو پرکھا جا سکتا ہے۔”

ہارورڈ کے جان اے پالسن سکول آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنسز نے مائیکرو پلاسٹک فلٹر تیار کرنے کے لیے ایک کلاس کی پیشکش کی۔

جرمنی کی کیمیکل کمپنی ‘ بی اے ایس ایف’ کی سرپرستی میں ہونے والی اس کلاس میں طلباء کو چیلنج کیا گیا کہ وہ پانی سے مائیکرو پلاسٹک [پلاسٹک کے باریک ذروں]  کو علیحدہ کرنے کا  طریقہ تلاش کریں۔ مائیکرو پلاسٹک سے دنیا بھر میں آبی انواع اور پرندوں کی آبادیوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

طلباء کے وضع کردہ نظام میں پانی کے اندر چھوٹے بلبلے ری ایکٹر کے اندر پلاسٹک کے ذرات کو ہلاتے ہیں۔ اس کے بعد ایک اضافی مرکب ذرات کو پانی کی سطح پر لے آتا ہے جہاں سے انہیں پانی سے نکالا جا سکتا ہے۔

طلبا کی اِس ٹیم میں شامل اور پراجیکٹ مینیجر، میگی شلٹز نے بتایا، “ہم سب انجینئر ہیں مگر ہمارا تعلق انجینئرنگ کے مخصوص اور مختلف شعبوں سے ہے۔ اس لیے متنوع ٹیم میں کام کرنا واقعی دلچسپ تھا۔ میں یقینی طور پر یہ سمجھتی ہوں کہ  میرے لیے سیکھنے کا یہ ایک بڑا موقع تھا۔”

یونیورسٹیوں سے فارغ ہونے کے بعد پراجیکٹوں پر عمل کیا جاتا ہے

کیتھرین سائیزوو ابھی پنسلوانیا یونیورسٹی کی انڈرگریجویٹ طالبہ ہی تھیں کہ اُنہوں نے اور اُن کے ہم جماعتوں نے ایتھیلین سینسروں میں یہ جاننے کے لیے تبدیلیاں کیں کہ پھل کب خراب ہونے لگتے ہیں۔ سینسر کا مقصد خوراک کے فضلے کو کم کرنا ہے کیونکہ یہ فضلہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے 6% سے 8% حصے کا باعث بنتا ہے۔

 ٹریلر کے قریب ایک فورک لفٹر © Jovelle Tamayo/The Washington Post/Getty Images)
درختوں سے تازہ توڑے گئے پھلوں کو ویناچی، واشنگٹن میں ایئرکنڈیشن گوداموں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی جگہوں پر پھلوں کی تازگی پر نظر رکھنے کے لیے سائیزوو کے سینسر استعمال کیے جاتے ہیں۔ © Jovelle Tamayo/The Washington Post/Getty Images)

بڑے بڑے سٹوروں میں پہنچنے سے پہلے گوداموں میں پھلوں کا ایک بڑا حصہ خراب ہو جاتا ہے۔ سائیزوف کی ٹیم کے تیار کردہ سینسر سپلائروں کو سیب، ناشپاتی اور دیگر پھلوں سے خارج ہونے والے کمیائی مادوں کی سطحوں کے بارے میں ہوشیار کر دیتے ہیں۔ ا ن معلومات کی روشنی میں سپلائر اِن اشیاء کو سٹور پر فروخت کرنے کے بہترین وقت کا تعین کر سکتے ہیں۔

گریجویشن کے بعد سائیزوو نے سینسر ٹکنالوجی کو بہتر بنانے کے لیے ‘ سٹریلا بائیو ٹکنالوجی’ کے نام سے اپنی کمپنی بنائی۔ گزشتہ چند برسوں میں سٹریلا نے پورے ملک میں سینسر فروخت کیے ہیں۔ اس وقت امریکہ میں ناشپاتی اور سیب پیک کرنے والی آدھی سے زیادہ فیکٹریوں میں ان کے سنسروں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔