
1839ء میں بادبانی مال بردار امیسٹاڈ نامی جہاز، ہوانا سے پورٹو پرنسیپے، کیوبا کے لیے روانہ ہوا۔ اس پر 53 افریقی بھی سوار تھے جنہیں جزیرے پر بطور غلام زندگیاں گزارنے کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔ پھر اس بادبانی جہاز پر ہی ان افریقیوں نے اپنی آزادی کی جنگ لڑی۔ اور بہت جلد، غلامی کے خاتمے کے امریکی حامی اُن کی جنگ کو امریکی عدالتوں میں لے گئے۔

مینڈے قبیلے سے تعلق رکھنے والے 49 مردوں، تین لڑکیوں اور ایک لڑکے کو غلاموں کے پرتگالی تاجروں نے آج کے، سیئرا لیون میں پکڑا اور غلاموں کے طور پر تب کی ایک ہسپانوی نوآبادی اور آج کے کیوبا میں مقامی زمینداروں کے ہاتھ فروخت کر دیا۔
اس وقت تک امریکہ کے ساتھ ساتھ سپین اور دیگر یورپی طاقتیں غلاموں کی درآمد کو غیر قانونی قرار دے چکی تھیں۔ مگر بحر اوقیانوس کے اُس پار سے غلاموں کی غیر قانونی تجارت ابھی تک جاری تھی۔ ہوانا جہاں مینڈے قبیلے کے اِن افراد کو بیچا گیا اس قسم کی سرگرمیوں کی ایک بڑی بندرگاہ بن چکا تھا۔
بحری جہاز امیسٹاڈ پر خونی بغاوت کے بعد، سینگبی پائے نے (جسے غلاموں کے ہسپانوی تاجروں نے جوزف سنکے کا نام دیا تھا) زمینداروں کو امیسٹاڈ کو سیئرا لیون لے جانے کا حکم دیا۔
پائے اور بچ جانے والے دیگر 41 افراد کو بتائے بغیر، زمینداروں نے راستہ تبدیل کر کے جہاز کا رخ امریکہ کی طرف موڑ دیا۔
قانونی جھڑپیں
امریکی بحریہ نے لانگ آئی لینڈ، نیویارک کے ساحل کے قریب امیسٹاڈ کو اپنے قبضے میں لیا اور اسے کھینچ کر ریاست کنیٹی کٹ کی ایک قریبی بندرگاہ پر لے گئے۔
امریکہ کی شمال مشرقی ریاست، کنیٹی کٹ میں جہاز کی آمد نے ایک سفارتی، قانونی اور اخلاقی جنگ چھیڑ دی۔ بعد میں جس کے نتیجے میں غلامی سے متعلق سوالات کو امریکی سپریم کورٹ تک جانا تھا۔
ہسپانوی حکومت نے مینڈے قبیلے کے بچ جانے والے اِن افراد کو کیوبا واپس کرنے کی براہ راست درخواست، صدر مارٹن وین بیورن کو بھیجی۔ صدر نے یہ درخواست ہارٹفورڈ، کنیٹی کٹ میں امریکہ کی ضلعی عدالت کو بھجوا دی جہاں ایک مقدمہ اس سوال کے بارے میں پہلے ہی سے زیر التوا تھا کہ کیا مینڈے قبیلے کے یہ لوگ واقعی غلام ہیں۔
وین بیورن کو دوبارہ صدر منتخب ہونے میں مشکلات کا سامنا تھا کیونکہ معاشی بحران کی وجہ سے انہیں حاصل حمایت نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ ہسپانوی دعووں کو عدالت کی طرف سے مانے جانے کے بارے میں اتنے پراعتماد تھے کہ انہوں نے مقدمے کے دوران کنیٹی کٹ کی ایک جیل میں نظر بند قیدیوں کو واپس کیوبا لے جانے کے لیے بحریہ کا ایک جہاز تیار کر دیا۔

ادھر، غلامی کے خاتمے کے حامیوں نے پائے اور بچ جانے والے دیگر افراد کے انٹرویو کرنے کے لیے ایک مترجم کی اجرت پر خدمات حاصل کرنے اور غلامی کے خاتمے کے حامی وکیل، لوئس ٹپین سے قانونی مدد حاصل کرنے کے لیے پیسے اکٹھے کیے۔ ٹپین نے افریقیوں کی حالت زار کی بنیاد پر اُن کے لیے عوامی ہمدردیاں حاصل کیں۔
ضلعی عدالت کے جج، اینڈریو جڈ سن نے افریقیوں کی حمایت کی (پی ڈی ایف، 824 کے بی) اور 1840ء میں یہ فیصلہ سنایا کہ وہ (افریقی) ہسپانوی غلام نہیں ہیں۔ انہیں کیونکہ غیرقانونی طور پر یہاں لایا گیا ہے لہذا انہیں واپس سیئرا لیون بھجوایا جائے۔ وین بیورین کی انتظامیہ نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی مگر اُن کی اپیل مسترد ہوگئی۔ اس فیصلے نے بہت سوں کو حیرت زدہ دیا۔
سپریم کورٹ میں حتمی اپیل میں امریکی حکومت کا یہ دلائل دینے کا منصوبہ تھا کہ معاہدے کے تحت عائد شدہ ذمہ داریوں کی رُو سے وہ افریقیوں کو کیوبا واپس بھیجنے کی پابند ہے۔
ٹپین اور غلامی کے خاتمے کے حامی، ایلس گرے لورنگ نے اپنی قانونی ٹیم میں اہم تبدیلی کی۔ انہوں نے اس ُکو ٹیم میں رکھنے کا فیصلہ کیا جو ماضی میں سپریم کورٹ کے سامنے دلائل دے چکا ہو، جو معاہدوں پر مذاکرات کر چکا ہو اور سب سے اہم بات یہ کہ جو غلامی سے نفرت کرتا ہو۔
ایک سابق صدر کا شامل ہونا

غلامی کے خاتمے کے حامیوں کو یہ سب خوبیاں سابق صدر جان کوئنسی ایڈمز میں نظر آئیں۔ 72 برس کی عمر میں وہ ابھی تک ریاست میساچوسٹس کے ایک کانگریس مین کی حیثیت سے سیاست میں متحرک تھے۔ ابتدا میں وہ افریقیوں کے مقدمے میں دلائل دینے سے ہچکچائے مگروہ یہ سوچتے ہوئے مان گئے کہ یہ اُن کا امریکہ کی خدمت کا آخری کام ہوگا۔
جان ڈبلیو فرینکلن، سمتھسونین کے افریقی نژاد امریکیوں کی تاریخ و ثقافت کے قومی عجائب گھر کے سابق مینیجر ہیں۔ فرینکلن کہتے ہیں، “ہم اب سوچتے ہیں، ‘صدور کیا کریں گے جب وہ صدر نہیں رہیں گے؟'” اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں، “یہ ایک مثال ہے۔” ایڈمز “معاشرے کے ایک طاقتور فرد تھے۔”
ایڈمز نے 1841ء میں یہ کہتے ہوئے امیسٹاڈ مقدمے میں دلائل دیئے کہ مینڈے قبیلے کے یہ لوگ آزاد ہیں اور اُنہیں اُن کے وطن واپس بھیجا جائے۔
انہوں نے امریکہ کو اپنے آدرشوں پر پورا اترنے کا چیلنج کیا۔ ایڈمز نے کہا، “جب آپ ِ آزادی کے منشور کے [اِن الفاظ پر] آتے ہیں جو [یہ کہتے ہیں] کہ ہر شخص کو زندگی اور آزادی کا حق حاصل ہے، جو کہ ایک ناگزیر حق ہے، تو اس مقدمے کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ میں اِن بدقسمت افراد کی طرف سے [اس سے زیادہ] کچھ نہیں مانگتا جو اس منشور میں کہا گیا ہے۔”
سپریم کورٹ نے ایڈمز کے دلائل سے اتفاق کیا۔ غلامی کے خاتمے کے حامیوں نے طویل عرصے سے مصائب جھیلنے والے اِن افریقیوں کو اُن کی وطن واپسی میں مدد کرنے کے لیے پیسے اکٹھے کیے۔ (اِن میں سے بعض عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کے خاتمے کا انتظار کرتے ہوئے بیماریوں سے مر گئے۔) پائے سمیت 35 افریقی اپنے ملک، سیئرا لیون واپس چلے گئے۔ (بعد میں اِن میں سے ایک لڑکی اوہائیو میں اوبرلین کالج میں تعلیم حاصل کرنے امریکہ واپس آئی۔)
دوسری طرف، وین بیورین (سپریم کورٹ میں اس مقدمے کی سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی) دوبارہ صدر منتخب ہونے کی کوشش میں ناکام ہوگئے۔
1992ء میں ریاست کنیٹی کٹ کے شہر نیو ہیون نے امیسٹاڈ کے اغوا سے بچ جانے والوں کی یاد میں پائے کی ایک چار میٹر بلند کانسی کی یادگار تعمیر کی جس میں پائے کی شبہیہ اُس جگہ پر آج فاخرانہ انداز سے کھڑی ہے جہاں کبھی نیو ہیون جیل ہوا کرتی تھی۔ اسی جیل میں نظربندی کے دوران پائے اور اُن کے افریقی ساتھیوں نے وہ قانونی لڑائیاں لڑیں جن کے نتیجے میں انہیں رہائی ملی اور امریکہ میں غلامی کے خاتمے کے حامیوں کی تحریک مضبوط ہوئی۔
اس سے پہلے یہ آرٹیکل ایک مختلف شکل میں اس سے پہلے 20 اگست 2020 کو شائع ہو چکا ہے۔