انتخابات: صحافتی خود احتسابی کا امتحان

انتخابات اور ریفرنڈموں میں لوگوں کے ووٹ دینے کا انحصار عموماً اس بات پرہوتا ہے کہ وہ ریڈیو پر کیا سنتے ہیں، ٹیلی ویژن پر کیا دیکھتے ہیں اور اخبارات یا خبروں کی ویب سائٹوں پر کیا پڑھتے ہیں۔ سال 2018 میں براعظم افریقہ میں صحافیوں کے لیے کام تیار ہے کیونکہ جولائی سے اس سال کے اختتام تک درج ذیل ممالک میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں:

  • مالی (29 جولائی کو صدارتی انتخاب)
  • زمبابوے (جولائی یا اگست میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات)
  • لیبیا (ستمبر میں پارلیمانی انتخابات)
  • کیمرون (اکتوبر میں صدارتی انتخاب)
  • مڈغاسکر (26 نومبر کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات)
  • موریطانیہ (نومبر یا دسمبر میں قومی اسمبلی کے انتخابات)
  • عوامی جموریہ کانگو (23 دسمبر کو صدارتی اور قانون ساز اسمبلی کے انتخابات)

تجربہ کار صحافی کیون زیڈ سمتھ کہتے ہیں کہ جب ووٹر ووٹ ڈالنے جا رہے ہوں تو صحافیوں کا کام “معلومات کے ذریعے …  شہریوں کو آگاہی فراہم کرنا ہوتا ہے تاکہ وہ مناسب فیصلے کر سکیں۔” صحافیوں کو درپیش سنسرشپ، رشوت اور اُن کی جانوں کو لاحق خطرات جیسے دباؤ کی وجہ سے یہ کام ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔

25 برس تک پیشہ وارانہ صحافت سے منسلک رہنے کے بعد سمتھ اب اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی میں عوامی امور کی صحافت سے متعلق کپلنگر پروگرام کے ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے یوگنڈا اور سیرالیون میں صحافیوں کو آزاد صحافت کی تربیت دی ہے۔

Pinky finger after being dipped into purple ink well (© Issouf Sanogo/AFP/Getty Images)
2018ء میں صدارتی انتخاب کے دوبارہ انعقاد کے موقع پر ایک ووٹر سیئرالیون کے شہر فری ٹاؤن میں اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد سیاہی میں اپنی انگلی ڈبو رہا ہے۔ (© Issouf Sanogo/AFP/Getty Images)

سمتھ نے اس حقیقت پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اب خبریں فراہم کرنے والے میڈیا کے بہت سے اداروں  پر حکومتوں اور ایسے کاروباری یا نجی مفاداتی گروہوں کا قبضہ ہے جو اپنے مالیاتی روابط  ظاہر کیے بغیر رائے دہندگان تک اپنی باتیں پہنچانے کے لیے صحافیوں کو پیسے دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جمہوریت میں صحافت کو “حکومت کے نگران کا کردار ادا کرنا چاہیے اور شہریوں کو معلومات  فراہم کرنی چاہئیں تاکہ وہ اپنی حکومت اور طرز زندگی کے حوالے سے مناسب فیصلے کر سکیں۔”

وہ کہتے ہیں کہ “اگر آپ کسی اور مفاد کے پیچھے لگے ہوئے ہیں، اگر آپ کا مقصد کچھ  اور  ہے اور آپ مخصوص لوگوں کے انتخاب کے لیے ایسے انداز سے رپورٹنگ کر رہے ہیں جو درست اور منصفانہ نہیں ہے تو پھر آپ صحافی کی حیثیت سے اپنا کام نہیں کر رہے۔”

اگر کوئی ایسا وقت ہے جب “صحافت کو اپنے کام میں تیزی لانا، خود کو احتساب کے لیے پیش کرنا اور درست اور منصفانہ رہتے ہوئے صحیح کام کرنا ہے تو بلا شک و شبہ اور یقینی طور پر یہ وقت  انتخابی عمل کا وقت ہے۔  اگر اس موقع پر آپ اس کے برعکس کام کر رہے ہیں تو آپ شہریوں کو معلومات کے بارے میں دھوکہ دے رہے ہیں۔ آپ انہیں اُن فیصلہ سازیوں کے مواقعوں کے بارے میں دھوکہ دے کر محروم  کر رہے ہیں جو ان کی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔”

قبل ازیں، یہ مضمون ایک مختلف شکل میں 29 اپریل 2016 کو شائع  ہو چکا ہے۔