گرم علاقوں میں بہت سی بیماریاں طفیلیوں سے پھیلتی ہیں۔ ٹریکوما کا معاملہ مختلف ہے۔ اس وبائی بیماری کا باعث ‘کلیمیڈیا’ نامی جراثیم بنتے ہیں جن کا شکار ہونے والے مریض اندھے ہو سکتے ہیں۔
یہ بیماری ایک فرد سے دوسرے فرد کو لاحق ہو سکتی ہے۔ بالعموم آنکھوں اور ناک سے بہنے والی رطوبتوں کے ذریعے ایک سے دوسرے بچے یا ماں سے نوزائیدہ بچے کو لگ سکتی ہے۔ مکھیاں بھی اس بیماری کے پھیلنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ انفیکشن والی یہ بیماری ایسے علاقوں میں گندے کپڑوں یا بستروں سے بھی پھیل سکتی ہے جہاں لوگوں کو مناسب مقدار میں صاف پانی اور نکاسی آب کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔
تاہم سالانہ بنیادوں پر جراثیم کش ادویات کے استعمال سے اسے روکا یا بڑی حد تک اس کا دائرہ اثر کم کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک عالمگیر مہم کامیابی سے ہمکنار ہو رہی ہے۔
عالمی ترقی کے امریکی ادارے (یوایس ایڈ)، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)، فاؤنڈیشنوں اور دیگر شراکت داروں کی بدولت ہر سال کروڑوں لوگوں کو جراثیم کش ادویات مفت فراہم کی جا رہی ہیں۔ ان اداروں میں امریکی دوا ساز کمپنی ‘فائزر’ بھی شامل ہے جو اپنی طاقتور جراثیم کش دوا ‘زیتھرومیکس’ (جس کا عمومی نام ایزیتھرومائسین ہے) عطیے کے طور پر فراہم کرتی ہے۔ 1999ء سے لے کر اب تک فائزر نے بطور عطیہ اس دوا کی 76 کروڑ خوراکیں فراہم کی ہیں۔
41 ممالک میں ٹریکوما ایک مسئلہ بنا ہوا ہے جن میں بیشتر کا تعلق افریقہ سے ہے۔ تاہم ایشیا اور لاطینی امریکہ کے بعض ممالک میں بھی یہ بیماری موجود ہے۔ قریباً 20 لاکھ افراد کے اندھے پن یا بینائی کے نقائص کا سبب یہی بیماری ہے۔
حال ہی میں عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا ہے کہ گھانا اور نیپال میں ٹریکوما اب صحت عامہ کا مسئلہ نہیں رہا اور یہ اس بیماری سے پاک ہونے والے چھٹے اور ساتویں ملک بن گئے ہیں۔ ایسے دیگر ممالک میں کمبوڈیا، لاؤس، میکسیکو، مراکش اور اومان شامل ہیں۔ مزید ممالک بھی اس ہدف کے قریب پہنچ رہے ہیں۔

2020 تک اس خطرے پر قابو پانے کا ابتدا میں مقرر کیے جانے والے ہدف کو پورا کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ جمہوریہ کانگو کے شہر برازا وِل میں گرم مرطوب علاقوں کی نظرانداز کر دی جانے والی بیماریوں کے خاتمے کی غرض سے قائم کیے جانے والے عالمی ادارہ صحت کے خصوصی پراجیکٹ آفس کی سربراہ، ڈاکٹر ماریا روبیلو پولو کا کہنا ہے، ”واضح طور پر ہم اس ہدف سے دور ہیں۔”
تاہم اس کے باوجود یہ سرکاری و نجی شعبے کی شراکت کاریوں اور امریکی ڈالروں اور کمپنیوں کے قائدانہ کردار کی بدولت، ایک قابل ذکر کامیابی ہے۔ سپین سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر روبیلو کا کہنا ہے، ”دنیا میں گرم مرطوب علاقوں میں نظرانداز کردی جانے والی بیماریوں پر قابو پانے کے پروگراموں میں امریکی ٹیکس دہندگان نے پیسے کی شکل میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے۔”
‘یوایس ایڈ’ کے عہدیدار راب ہنری بتاتے ہیں کہ ان کا ادارہ اس مقصد کے لیے سالانہ دس کروڑ ڈالر کی امداد دیتا ہے اور ٹیکس دہندگان کے ایک ڈالر کے بدلے دوا ساز کمپنیاں 26 ڈالر عطیے کے طور پر دیتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان جراثیم سے متاثر ہونے والے بعض بچوں اور بڑوں کو تواتر سے آنکھ کی سوزشوں کا سامنا ہوتا ہے۔ کئی مرتبہ اِن سوزشوں کا مجموعی اثر آنکھ کے بالائی پپوٹے کے اندر کی جانب مڑنے سے آنکھ کے ڈھیلے پر لگنے والی خراشوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس سے تکلیف دہ زخم بنتے ہیں جو مریض کے دائمی اندھے پن کا باعث بن جاتے ہیں۔ 2016 میں سرجنوں نے ڈھائی لاکھ افراد کے پپوٹوں کا علاج کیا اور 85 لاکھ افراد کو جراثیم کش دوائیں دیں۔
صحت کی قومی وزارتوں اور کمیونٹی میں طبی کارکنوں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے ہر سال جراثیم کش دوائیں فراہم کرنےکی مہمات چلائی جاتی ہیں۔ روبیلو کہتی ہیں، ”یہ ادویات اس قدر محفوظ ہیں کہ تربیت یافتہ رضاکار بھی انہیں مریضوں کو دے سکتے ہیں۔” طبی ٹیمیں چہرے کی صفائی اور حفظانِ صحت کے دیگر اصولوں کی اہمیت پر زور دیتی ہیں۔

روبیلو بتاتی ہیں کہ گرم مرطوب علاقوں کی بعض بیماریوں کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس کے باوجود بھی کچھ لوگ ٹریکوما سے متاثر ہوتے رہیں گے کیونکہ یہ جراثیم قدرتی طور پر پیدا ہوتے ہیں۔ اگر 5 فیصد سے کم بچوں کے پپوٹوں میں سوجن ہو اور 1000 بڑے افراد میں سے صرف ایک کو یہ بیماری لاحق ہو تو عالمی ادارہ صحت اس علاقے کو ٹریکوما کے خطرے سے پاک قرار دیتا ہے۔
‘فائزر’ کی جراثیم کش دوائیں دیگر جراثیمی بیماریوں کے علاج میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ حال ہی میں ‘نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین’ کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نائیجر، تنزانیہ اور ملاوی میں سال میں دو مرتبہ یہ دوا دینے سے متاثرہ نومولود بچوں کی اموات کی تمام وجوہات میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ایک اور بڑی امریکی دوا ساز کمپنی ‘مرک’ بھی گرم مطلوب علاقوں کی بیماریوں کے خلاف جنگ میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ مرک نے 30 سال قبل اپنی دوا ‘میکٹیزان’ عطیے کے طور پر دینا شروع کی تھی جو دریائی اندھے پن اور فیل پا کے علاج میں کام آتی ہے۔ 2017 میں اس کمپنی نے دوائیوں کی 36 کروڑ آٹھ لاکھ خوراکیں فراہم کیں۔