
یوسف ابراہم میحری 2011 میں جب سوڈان کے سب سے بڑے شہر اور دارالحکومت خرطوم میں ڈاکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے تو انسانی بیوپار کا شکار ہونے والے افراد کو دیکھنے پر انہیں احساس ہوا کہ اِن افراد کو طبی امداد سے بڑھکر کسی اور چیز کی کہیں زیادہ ضرورت ہے اور وہ یہ چیز مہیا کر سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “لہذا میں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں سے بات کی اور پوچھا، ‘ میں کیا کر سکتا ہوں؟’ ”

میحری نے اپنے دو دوستوں کے ساتھ مل کر خرطوم میں ایک “محفوظ گھر” قائم کیا جس میں آج 65 عورتیں اور بچے رہ رہے ہیں۔ وہاں پر انسانی بیوپار کے متاثرین کو طبی اور نفسیاتی علاج کے ساتھ ساتھ قانونی مدد اور کام کی تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔
ڈاکٹر میحری اُن 10 افراد میں شامل ہیں جنہیں واشنگٹن میں 28 جون کو محکمہ خارجہ نے انسانی بیوپار کے خلاف اپنے اپنے ملکوں اور دنیا بھر میں جدوجہد کرنے کے اُن کے عزم پر اعزازات دیے۔
ڈاکٹر میحری گزشتہ سات برسوں میں سینکڑوں لوگوں کی مدد کر چکے ہیں۔ اِنسانی بیوپار سے متاثر ہونے والوں کے بارے میں انہوں نے بتایا، “اِن میں سے زیادہ تر لوگوں کا نہ تو کوئی خاندان ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی رہائشی ٹھکانہ ہوتا ہے۔” ڈاکٹر میحری سوڈانی حکام اور خدمات مہیا کرنے والے اداروں کے مابین یہ یقینی بنانے کے لیے رابطے کا کام بھی کرتے ہیں کہ متاثرین کو مناسب سہولتیں ملیں اور انسانی بیوپار کرنے والے مجرموں پر مقدمات چلائے جائیں۔
28 جون کو محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری کی جانے والی 2018 کی انسانی بیوپار کی رپورٹ کے مطابق انسانی بیوپار کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ امریکہ سمیت اس سالانہ رپورٹ میں 187 ممالک میں انسانی بیوپار کی صورت حال کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا کے ممالک کی خطرات کی نشاندہی کرنے میں مدد کرنا ہوتا ہے تاکہ قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے دنیا بھر میں موثر انداز سے کاروائی کر سکیں۔

وزیرخارجہ نے رپورٹ کے اجراء اور 10 ہیروز کو اعزازات دینے کے لیے منعقد کی جانے والی تقریب میں کہا، “انسانی بیوپار ایک عالمی مسئلہ ہے مگر یہ مقامی مسئلہ بھی ہے۔ انسانی بیوپار کی عملی شکل آپ کو اپنے کسی پسندیدہ ریستوران، شہر کے وسط میں کسی ہوٹل، کسی فارم یا کسی ہمسائے کے گھر پر بھی ملے گی۔”

محکمہ خارجہ نے اس سال ایک اور ہیرو، بلیسنگ اوکوڈین کو بھی اعزاز سے نواز ہے۔ انہیں تب یونیورسٹی سے فارغ ہوئے پانچ سال ہو چکے تھے جب انہیں دھوکے سے یہ یقین دلایا گیا کہ ایک غیرملک میں اُن کے شعبے میں نوکری اُن کی منتظر ہے۔ اس کی بجائے انہیں اٹلی کی سڑکوں پر جسم فروشی پر مجبور کیا گیا۔
انسانی بیوپار کے خاتمے کے لیے ویٹی کن میں “اینڈ سلیوری” یعنی غلامی کو ختم کرو کے نام سے قائم ادارے کے لوگوں کو انہوں نے بتایا، “سڑکوں پر رہنے کی اس بدحال زندگی سے مایوس اور تھک ہار کر ایک دن ہمت کرکے اپنے ملک واپس جانے کے لیے مدد مانگنے کی خاطر، میں پولیس سٹیشن چلی گئی۔ پولیس اُنہیں کیتھولک نن کے زیرسرپرستی چلائی جانے والی پناہگاہ لے گئی۔
اس وقت سے لے کر آج تک اوکوڈین اٹلی اور اپنے آبائی ملک نائجیریا میں انسانی بیوپار کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کمیونیٹیوں میں انسانی بیوپار کی شناخت کی غرض سے آگاہی پیدا کرنے کے طریقے اور نوجوان عورتوں کو اس سے بچنے کے طریقے سکھانے میں مددد کرنے کی خاطر کیتھولک تنظیموں کے ساتھ شراکت کاری کر رکھی ہے۔
وہ کہتی ہیں، “چھوٹوں بڑوں سب کو اس جدید غلامی کو ختم کرنے میں برابر کا کردار ادا کرنا ہے تا کہ ہر انسان آزادی اور وقار سے لطف اندوز سکے۔”
محمکہ خارجہ سے اعزاز پانے والے دیگر ہیروز سے ملاقات کریں۔