
نرگس محمدی کا تعلق ایران سے ہے۔ آپ ایک ماہرِعلم الطبیعیات، انجینئر، بیوی اور ماں ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی علمبردار اور 2018 میں “امریکی فزیکل سوسائٹی کا آندرے سخاروف” نامی انعام حاصل کرنے والی خاتون بھی ہیں۔
اور، محمدی ایران کی بدنام زمانہ اوین جیل کی ایک قیدی بھی ہیں۔
ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کو محمدی کی تحریر کردہ وہ تقریر موصول ہوئی جو انہوں نے اس تقریب کے لیے لکھی تھی جس میں انہیں آندرے سخاروف انعام سے نوازا گیا تھا۔ محمدی اپنی اس تقریر میں رقم طراز ہیں، “یہاں جیل میں قید، میں آپ کی طرف سے عزت افزائی پر بہت شکر گزار ہوں۔ میں انسانی حقوق کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھوں گی۔ یہ کوششیں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک امن کا حصول ممکن نہیں ہو جاتا، جب تک مختلف خیالات کے اظہار اور انسانی حقوق کی آزادی حاصل نہیں ہو جاتی۔” یہ انعام روسی ماہر طبیعیات آندرے سخاروف کے نام سے منسوب ہے جنہیں 1975 میں امن کا نوبیل انعام ملا تھا۔ انہیں یہ نوبیل انعام ان کی انسانی حقوق کے لیے کی گئی کوششوں اور سرگرمیوں کی وجہ سے دیا گیا تھا۔
https://twitter.com/Amandalavan1/status/997507397865365504
محمدی کو متعدد بار گرفتاری اور جیل کا سامنا کرنا پڑا۔ آخری بار انہیں 2015 میں جیل بھیجا گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ایران سے متعلق سال 2017 کی انسانی حقوق کی رپورٹ کے مطابق “ریاست کے خلاف” پراپیگنڈا کرنے کے جرم میں محمدی کو تہران کی ایک انقلابی عدالت نے 16 برس قید کی سزا سنائی تھی۔ انہوں نے ایران کی باقاعدگی سے سرعام اور بڑے پیمانے پر دی جانے والی موت کی سزاؤں کے خلاف مہم شروع کی تھی۔ اس مہم کا نام ” سزائے موت کو مرحلہ وار بند کروانا” تھا۔ اس مہم کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ گردانا گیا جو کہ ان کے اظہار رائے کے شخصی حق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
امریکی فزیکل سوسائٹی کی انعام دینے والی سخاروف کمیٹی نے ان کی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ “انہوں نے ایرانی عوام کے انسانی حقوق اور آزادیوں کے فروغ کے لیے غیر متزلزل اور غیر معمولی کاوشیں کی ہیں۔” امریکہ سے تعلق رکھنے والی طبیعیات کی یہ سوسائٹی ہر دوسرے برس یہ ایوارڈ دیتی ہے۔ اس ایوارڈ کا مقصد سائنسدانوں کی انسانی حقوق کی حمایت اور طرفداری میں قائدانہ کردار کو سراہانا ہے۔
ایرانی جیلوں کی زندگی
جیل حکام قید کے دوران جیل کے اندر محمدی کی صحت کو درپیش اہم اور قابل توجہ مسائل کے علاج کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی سے باربار انکار کرکے انہیں سزا دے رہے ہیں۔ ان کی رشتہ داروں اور خاندان والوں سے ملاقاتیں نہیں کروائی جاتیں۔ انہیں فون پر بات نہیں کرنے دی جاتی۔
ان کے شوہر تقی رحمانی اور 11 سال کی عمر کےجڑواں بچے علی اور کیانا ان کے حراست میں لیے جانے کے بعد ایران سے فرار ہو گئے تھے اور اب فرانس میں رہائش پذیر ہیں۔ قیدیوں کے رشتہ داروں اور خاندان والوں کو ایران کے سرکاری حکام کی جانب سے ہراساں کیا جانا اور دھمکیاں ملنا معمول کا کام ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے مطابق ایران کی جیلوں کے حالات سخت خراب اور زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔ وہاں پانی اور خوراک کی کمی ہے۔ گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی رکھے جاتے ہیں۔ جیل کا اندرونی نظام حفظان صحت کے اصولوں کے منافی ہے۔ جنسی زیادتی سمیت جسمانی اذیت اور تشدد جیسے انسانیت سوز حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔ سفاکانہ تفتیش جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔
حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے ایران کے خلاف اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ”ایرانی حکومت کئی دہائیوں سے حکومتی نظریات سے اختلاف رکھنے والوں کے خلاف دہشت اور اذیت کا استعمال کرتی چلی آ رہی ہے اور اس کے ثبوت دستاویزات کی شکل میں موجود ہیں۔”
ضمیر کی قیدی
ایران کی عدالت نے محمدی کو ایران میں انسانی حقوق کے موضوع پرہمیشہ کے لیے زبان بندی کے عوض جیل سے رہائی کی پیشکش کی تھی۔ محمدی نے 2017 میں اس پیشکش کا جواب کھلے خط کی صورت میں دیا کہ “اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ رہنے اور ایران کے مستقبل کو راکھ میں بدلتا دیکھنے کی بجائے، میں قید میں رہنے کو ترجیح دیتی ہوں۔ میں اوین کی اس جیل میں انسانی حقوق کے لیے لڑوں گی، میں اپنے مادر وطن کے بچوں کے مستقبل کے لیے اپنے بیٹے اور بیٹی سے دوری برداشت کرنا پسند کرتی ہوں۔”
محمدی کا شمار ضمیر کےان 700 قیدیوں میں ہوتا ہے جنہیں 2017 کے دوران ایرانی حکومت نے جیلوں میں بند کر رکھا ہے۔ ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو اپنے مذہبی عقائد کی وجہ سے جیل میں ڈالے گئے۔