ایک تارک وطن اور نازی ازم سے بھاگ کر امریکہ کی پہلی خاتون وزیر خارجہ بننے والی، میڈلین آلبرائٹ 23 مارچ کو کینسر کے باعث انتقال کر گئیں۔ وہ 84 برس کی تھیں۔
آلبرائٹ دنیا بھر میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی اپنی بھرپور حمایت کے لیے جانی جاتی تھیں۔1997 میں صدر بل کلنٹن نے انہیں اپنا وزیر خارجہ مقرر کیا۔ اس سے پہلے انہوں نے اقوام متحدہ میں امریکی مستقل نمائندہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔
اپنی تقرری کے وقت، آلبرائٹ امریکی حکومت کی تاریخ میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہونے والی پہلی خاتون تھیں۔
ایک تارک وطن سے ایک سفارت کار تک کا سفر
پراگ میں پیدا ہونے والی، آلبرائٹ اپنے والدین کے ساتھ 1939 میں 2 سال کی عمر میں انگلینڈ چلی گئیں۔ ان کے والدین چیکوسلواکیہ پر نازی حملے سے بچنے کے لیے انگلینڈ گئے تھے۔ جب آلبرائٹ 11 سال کی تھیں تو اُن کا خاندان امریکہ آ گیا۔
آلبرائٹ نے خواتین کے لیے مخصوص، ویلزلی کالج میں تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کی۔ اس کے بعد انہوں نے جوزف میڈل پیٹرسن آلبرائٹ سے شادی کر لی۔

آلبرائٹ نے 1976 میں کولمبیا یونیورسٹی سے پبلک لاء اور گورنمنٹ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہاں ان کے تعلیمی نگران زبگنیو برزنسکی تھے جو اسی سال صدر جمی کارٹر کی قومی سلامتی کونسل کے مشیر بنے۔ آلبرائٹ بھی 1976 میں وائٹ ہاؤس کے عملے کی ایک رکن بن گئیں اور کارٹر انتظامیہ میں قومی سلامتی کونسل میں شرکت کرنے لگیں۔
آلبرائٹ کی چار دہائیوں پر پھیلی پیشہ ورانہ سفارتی زندگی نے انہیں سوویت یونین کے انہدام کے بعد، بالخصوص مشرقی یورپ میں انسانی حقوق کی ایک زبردست محافظ اور وکیل ثابت کیا۔
پہلی خاتون وزیر خارجہ
وزیر خارجہ بننے والی پہلی خاتون کی حیثیت سے آلبرائٹ نے نیٹو اتحاد کی توسیع کی وکالت کی اور اپنے منصب کو مشرقی یورپ میں جمہوریت کی حمایت کے لیے استعمال کیا۔

وزیر خارجہ کے طور پر آلبرائٹ نے ترقی پذیر دنیا میں آزاد منڈی کو جمہوریت کی شکل دینے کو فروغ اور بہتر معاشرے کی تخلیق کی حمایت کی۔ انہوں نے عالمی موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ‘ کیوٹو پروٹوکول’ کی توثیق اور ویت نام کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے عمل کو آگے بڑہایا۔
2012 میں صدر باراک اوباما کی طرف سے انہیں دیئے جانے والے ‘ صدارتی تمغہ آزادی’ کا شمار انہیں ملنے والے بہت سے دیگر اعزازات میں ہوتا ہے۔

انہوں نے سات کتابیں تحریر کیں جن میں 2009 میں لکھی جانے والی ‘ ریڈ مائی پِنز: سٹوریز فرام اے ڈپلومیٹس جیول بکس‘ بھی شامل ہے۔ آلبرائٹ عالمی رہنماؤں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے دوران اپنے کوٹ کے کالر پر جو پِن لگائے ہوئے ہوتی تھیں وہ اکٹر کوئی نہ کوئی سفارتی پیغام لیے ہوتی تھیں۔ اس کے علاوہ پِنوں کی حیثیت ذاتی ہوتی تھی۔
انہوں نے پنوں کے بارے میں کہا، “[اِن کے] سب سے زیادہ یاد رہ جانے والے اوصاف وہ نہیں ہیں جو آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں بلکہ وہ ہیں جو ذہن میں اپنے کسی پیارے کے چہرے اور روح کی یاد تازہ کر دیتے ہیں۔” یہ پِنیں اب مستقل طور پر امریکی سفارت کاری کے قومی عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھی ہوئیں ہیں۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا، ’’میڈلین البرائٹ ایک ذہین سفارت کار، ایک صاحب بصیرت رہنما، ایک جرائتمند پہل کار، ایک مخلص رہنما، اور ایک ایسی عظیم اور عمدہ شخصیت تھیں جنہوں نے امریکہ سے دل کی گہرائیوں سے محبت کی اور اپنی زندگی اس کی خدمت کے لیے وقف کردی۔ وہ مجھ سمیت بہت سے لوگوں کی ایک شاندار دوست بھی تھیں۔ مجھے وہ بہت یاد آئیں گیں۔”