ہو سکتا ہے کہ “انسانی حقوق” کو ایک ایسی تصوراتی بات سمجھا جاتا ہو جس کا ذکر حکومت کی صرف اعلٰی ترین سطحوں پر کیا جاتا ہے۔ لیکن حکومتیں انسانی حقوق کے بارے میں جو کام کرتی ہیں، ان کے نتائج  برآمد ہوتے ہیں اور حتٰی کہ ان سے زندگی اور موت کا فرق بھی پڑ سکتا ہے۔

’’میں یہ دیکھ کر غیر معمولی طور پر فخر محسوس کرتا ہوں کہ اتنے زیادہ ممالک، لوگوں کے مذاہب سے قطع نظر ان کے برابری کی زندگی گزارنے کے بنیادی حق کے تصور میں ہمارے ساتھ شامل ہیں۔”

  • — ڈیوڈ سیپر سٹین، عمومی سفیر برائے مذہبی آزادی ۔

 

ایسے میں جب ہم 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا دن منانے جا رہے ہیں، تو آئیے ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ انسانی حقوق کے چار شعبوں میں بین الاقوامی مہمات نے دنیا بھر میں کس طرح لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا ہے۔

محنت کشوں کے حقوق

ملبوسات سازی کے بنگلہ دیشی کارکن اب محنت کشوں کے زیادہ حقوق کے ساتھ اُن فیکٹریوں میں کام کرسکتے ہیں جو حفاظت کے کڑے ضوابط کے تحت کام کرتی ہیں۔

بہتری کے یہ اقدامات 2013ء میں اس عمارت کے انہدام کے بعد عمل میں لائے گئے، جس میں ملبوسات سازی کے 1,000 سے زیادہ کارکن جاں بحق ہوئے۔

یہ المیہ سَویٹ شاپس کے حالات [ کم اجرت اور طویل اوقات تک کارکنوں سے کام لینے والی دکانوں کے حالات]  اور بنگلہ دیش میں ملبوسات کی ہزاروں فیکٹریوں کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے ایک بین الاقوامی کوشش کا سبب بنا۔ اس میں کلیدی اہمیت اس  بات کو حاصل ہے کہ اس کوشش کے نتیجے میں ملبوسات کی فیکٹریوں کے کارکنوں کے لیے، جن میں زیادہ تر عورتیں کام کرتی ہیں، یونین سازی پہلے سے زیادہ آسان ہو گئی ہے۔

نئے معیار تشکیل دینے کے لیے امریکہ، یورپی یونین، کینیڈا، بنگلہ دیش  اور محنت کی عالمی تنظیم  نے اکٹھے مل کر کام کیا۔ امریکہ اور یورپ میں ملبوسات سازی کی صنعت کے لیڈرروں نے بھی اس کام میں شرکت کرتے ہوئے فیکٹری کے معائنوں میں اضافہ کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ بنگلہ دیشی برآمد کنندگان محفوظ حالاتِ کار کی شرائط پر پورے اتریں۔

محنت کشوں سے متعلق بین الاقوامی معاملات کی محکمہ خارجہ کی نمائندہ، سارا فاکس نے بتایا، “درحقیقت ہم ان حقوق کو اس لیے فروغ  نہیں دیتے کہ یہ  مغربی  حقوق ہیں۔ بلکہ یہ بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حقوق ہیں۔ محنت کشوں کے حقوق، اقتصادی حقوق بھی ہیں۔ کارکنوں کی جانب سے ان حقوق کا استعمال ایسی معیشتوں کی تعمیر میں بڑی اہمیت رکھتا  ہے، جن میں خوش حالی اور ترقی کے فوائد میں وسیع پیمانے پر لوگوں کو شریک کیا جاتا ہے۔”

معذوریاں

منگولیا میں معذوریوں کے حامل تقریباً 2,000 افراد کے پاس اب ملازمتیں ہیں۔ اس کی جزوی وجہ وہاں معذوریوں کے حامل افراد کے حقوق کے سلسلے میں  پاس کیا جانے والا ایک نیا قانون ہے۔ منگولیا میں اس قسم کا یہ پہلا قانون ہے اور یہ امریکہ میں معذوریوں کے حامل افراد سے متعلق قانون سے ملتا جلتا ہے۔

معذوروں کے بین الاقوامی حقوق کے لیے محکمہ خارجہ کی خصوصی مشیر، جو ڈیتھ ہیومن نے ستمبر 2014 میں حکومت اور  فلاحی تنظیموں کے ساتھ ملاقاتوں کے لیے منگولیا کا دورہ کیا۔ اس کے چھ ماہ بعد، منگولیا کے پارلیمانی ارکان اور منگولیا کی معذوروں کے حقوق کی تنظیموں کے لیڈر اس بات کا مطالعہ کرنے امریکہ  کے دورے پر آئے کہ معذوریوں کے حامل امریکیوں کے قانون کو کس طرح تیار کیا  گیا تھا۔

منگولیا میں معذوریوں کے حامل افراد کے انسانی حقوق کے نئے قانون کو  فروری 2016 میں منظور کیا گیا اور مارچ میں اسے نافذ العمل کردیا گیا۔ منگولیا کی وزارت محنت نے بتایا ہے کہ اس کے بعد معذوریوں کے حامل افراد کے لیے تقریباً 2,000 ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے جا چکے ہیں۔

ہیومن نے کہا  کہ ان کے کام میں ” خود ان کا معذوری کا حامل ہونا، ان کے لیے بہت مدد گار ثابت ہوا ہے، اس لیے کہ میں [اور میرے ساتھی] دنیا بھر میں ایسی جگہوں کا بھی سفر کرتے ہیں، جہاں ہوسکتا ہے موٹر سے چلنے والی وہیل چئیرز استعمال کرنے والے لوگ سفر نہ کرسکتے ہوں۔ ہم معذوریوں کو مسلسل گفتگو کا موضوع بناتے رہتے ہیں۔”

ایل جی بی ٹی آئی لوگوں کے حقوق

بوسنیا میں ہم جنس پرست عورتیں اور مرد، دو جنسوں، متفرق جنسوں اور بین جنسوں کے حامل (LGBTI) افراد مدد کے لیے سراییوو اوپن سنٹر سے رجوع  کرسکتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایل جی بی ٹی آئی افراد کے مسائل کے بارے میں تربیت لینے کے لیے مقامی پولیس بھی اسی سنٹر میں جاتی ہے۔

سراییوو اوپن سنٹر ان تنظیموں میں شامل ہے، جنہیں مساوات کے عالمی فنڈ سے مالی امداد ملتی ہے۔ یہ فنڈ رواداری اور مساوات کے فروغ کے لیے حکومتوں، کمپنیوں، فاؤنڈیشنوں اور فلاحی تنظیموں کو ایک جگہ اکٹھا کرتا ہے۔

ہم جنس پرست عورتوں اور مردوں، دو جنسوں، متفرق جنسوں اور بین جنسوں کے حامل افراد کے انسانی حقوق کے لیے محکمہ خارجہ کے خصوصی ایلچی، رینڈی بیری کا کہنا ہے کہ انہوں نے مساوات کے عالمی فنڈ کے ساتھ  بوسنیا کے کام میں امید افزا علامتیں دیکھی ہیں۔ مثال کے طور پر، سربیا، مونٹی نیگرو اور سلووینیا اُن 29 ممالک میں شامل ہیں، جنہوں نے 2016ء میں یوراگوائے میں ہونے والی  ایل جی بی ٹی آئی کے انسانی حقوق کی کانفرنس میں قائم کیے جانے والے مساوی حقوق کے اتحاد  پر دستخط کیے ہیں۔

بیری نے کہا، “اس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر آپ تھوڑا سا جذبہ اور تھوڑی سی جدت طرازی پیدا کریں، تو اس کے نتیجے میں لوگوں میں کام کرنے کی خواہش ایک وبا کی طرح پھیل جاتی ہے۔”

مذہبی آزادی

Woman holding child in her lap (© AP Images)
ایک بین الاقوامی کوشش کے باعث اس یزیدی عورت اور اس کی بیٹی جیسے عراقیوں کو مذہبی بنا پر ڈھائے جانے والے مظالم سے تحفظ فراہم کرنے میں مدد مل رہی ہے۔ (© AP Images)

ایک عالمی مہم کے نتیجے میں وہ ہزاروں عراقی جنہیں مذہب کی بنیاد پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم سے جان بچا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا گیا تھا، اب اپنے گھروں  کو واپس جانے کے قابل ہوگئے ہیں۔

ڈیوڈ سیپرسٹین نے بتایا، ” وزیر خارجہ کیری کا اخذ کردہ یہ نتیجہ کہ عراق میں داعش کی سرگرمیاں یزیدیوں، عیسائیوں، شیعہ مسلمانوں اور دوسرے اقلیتی گروپوں کے قتل عام کے مترادف ہیں، ایک  بہت اہم کامیابی تھی۔ ” ڈیوڈ سیپرسٹین بین الاقوامی  مذہبی آزادی کے لیے امریکہ کے  عمومی سفیر ہیں۔ دنیا بھر میں مذہبی آزادی  کے مسائل کے حوالے سے وہ امریکہ کے  سرکردہ سفارت کار ہیں۔

وزیر خارجہ کے اخذ کردہ نتائج  پر مرکوز ہونے والی بین الاقوامی توجہ کے نتیجے میں واشنگٹن میں ہونے والی دو وعدہ کانفرنسوں  میں، بین الاقوامی وعدوں کی صورت میں 2 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم جمع ہوئی۔ سیپرسٹین نے بتایا کہ اس رقم سے “عراق میں ایسے طریقے سے سرمایہ لگایا جائے گا کہ اس سے اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے وہ بےگھر لوگ جو اپنے گھروں کو واپس آنا چاہیں، آ سکیں گے۔”