اِن میں سے بعض کو بلا وجہ حراست میں لیا گیا جبکہ بعض کو ہراساں کیا گیا مگر محکمہ خارجہ کے انسانی حقوق کے محافظوں کا ایوارڈ حاص کرنے والے تمام کے تمام 10 افراد میں ایک چیز مشترک ہے کہ اُن میں دنیا کو زیادہ سے زیادہ منصفانہ بنانے کے لیے جرات اور عزم پایا جاتا ہے۔
سویلین سکیورٹی، جمہوریت اور انسانی حقوق کی انڈر سیکرٹری، عذرا ضیا نے واشنگٹن میں ایک تقریب میں کہا کہ “اپنے ہم خیال شراکت کاروں کے قریبی تعاون سے انسانی حقوق کے محافظین کے انسانی حقوق کا تحفظ امریکہ کی خارجہ پالیسی لازمی جزو ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ ایوارڈ پانے والے دو افراد اس لیے یہاں موجود نہیں کیونکہ انہیں نا انصافی سے کام لیتے ہوئے قید میں ڈالا ہوا ہے۔
متنوع پسہائے منظر
انسانی حقوق کے ایوارڈ یافتہ محافظین کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے ہے۔ اِن میں سے ایک محنت کشوں کی لیڈر، ایک تحقیقاتی صحافی اور ایک سرجن ہے۔
ضیا نے کہا کہ ایوارڈ یافتہ تمام 10 محافظین اُن اقدار کے مجسم ہیں جو انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے میں بیان کیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی اس دستاویز میں اُن انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے جو ہر فرد کا حق ہے۔
اس سال انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کی 75ویں اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے محافظین کے بارے میں اعلامیے کی 25ویں سالگرہ ہے۔

بنگلہ دیش: محمد نور خان نے بنگلہ دیش کی انسانی حقوق کی دو مشہور تنظیموں کی قیادت کی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو دستاویزی شکل دینے اور سرکاری اہلکاروں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے بین الاقوامی گروپوں کے ساتھ مل کر کام کیا۔ اُن کے کام کی بدولت انسانی جانیں بچیں اور بےگناہ افراد کو سیاسی بنیادوں پر لگائے گئے الزامات سے چھٹکارا ملا۔
برازیل: ایلیز ڈی سوزا فاریاس ایک تحقیقاتی صحافی ہیں اور ایمازون کے خطے کے عام طور پر نظرانداز کیے جانے والے مسائل پر رپورٹنگ کرتی ہیں۔ انہوں نے 2013 میں ‘ایمازون ریال’ کے نام سے ایک آزاد نیوز ایجنسی کی مشترکہ طور پر بنیاد رکھی تاکہ مقامی لوگوں، عورتوں اور دیہی طبقات کی آوازوں اور خدشات کو سامنے لایا جا سکے۔ وہ آزاد میڈیا میں کاروباری خواتین کی جانب سے چلائی جانے والی ایک تحریک کی قیادت بھی کر رہی ہیں جس کا مطالبہ ایمازون کے خطے میں منصفانہ اور متوازن رپورٹنگ کرنا ہے۔
کمبوڈیا: چھم سیتھر کھمیر ملازمین کی انسانی حقوق کی حامی یونین کی سربراہ ہیں۔ انہوں نے ‘ناگا ورلڈ ریزارٹ اینڈ کسینو’ میں دسمبر 2021 میں شروع ہونے والی ایک سالہ ہڑتال کی قیادت کی۔ یونین تنخواہوں میں اضافے اور کسینو کے لگ بھگ اُن 370 ملازمیں کی بحالی کا مطالبہ کر رہی تھی جن کا یہ کہنا تھا اُنہیں غیرقانونی طور پر نوکریوں سے نکالا گیا ہے۔ سیتھر کو اُن کی یونین کی سرگرمیوں کی وجہ سے 2022 میں گرفتار کیا گیا۔ تاہم انہوں نے محنت کشوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا جاری رکھا۔
جارجیا: نینو لومجاریا نے ذاتی خرچے پر وکیل نہ کر سکنے والے افراد کے لیے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ عوامی وکیل کے طور پر 2017 سے 2022 تک کام کیا۔ اس حیثیت میں انہوں نے اور اُن کی ٹیم نے امتیازی سلوک کے خاتمے اور بچوں، معذوریوں کے حامل افراد، قیدیوں، ایل جی بی ٹی کیو آئی+ افراد اور مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والوں کے انسانی حقوق کے دفاع کا کام کیا۔ اِس دوران بعض اوقات انہیں شدید سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔
ہنڈوراس: میلانیا ریئس دہائیوں سے ہنڈراس میں عورتوں پر کیے جانے والے تشدد کے خلاف لڑ رہی ہیں۔ لوپیز آریلانو کالونی کے علاقے اور اس کے گردونواح میں عورتوں کی تحریک کے حوالے سے گزارے اپنے 28 برسوں میں میلانیا ریئس نے 7,300 عورتوں کی اُن پر تشدد کرنے والوں کا مقابلہ کرنے اور انہیں ڈھونڈ نکالنے میں مدد کی۔
ایران: نسرین ستودہ ایران کی انسانی حقوق کی مشہور وکیل اور ایک فعال کارکن ہیں۔ وہ عدالتوں میں حزب مخالف کے قید ایرانی سرگرم کارکنوں، زیادتیوں کا سامنے کرنے والے مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے لوگوں اور بچپن میں کیے جانے والے جرائم پر سزائے موت پانے والے قیدیوں کی وکالت کر چکی ہیں۔ 2010 کے بعد سے انہیں کئی بار قید میں ڈالا جا چکا ہے۔ مارچ 2019 میں حجاب نہ پہننے کے الزامات کا سامنا کرنے والی عورتوں کے دفاع کے لیے قانونی خدمات فراہم کرنے کی وجہ سے انہیں 38 برس کی قید اور 148 کوڑوں کی سزا دی گئی۔
عراق: بشدار حسن، بدینانی قیدیوں کی قانونی ٹیم کے سربراہ تھے۔ اس ٹیم نے اُن صحافیوں، فعال کارکنوں اور احتجاجی مظاہرین کا دفاع کیا جن کے بارے میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا کہ انہیں عراقی کردستان کے علاقے میں بدینان [دھوک صوبے] میں “من مانے طور پر گرفتار کیا گیا” اور “زبردستی غائب کر دیا گیا تھا۔” اِس قانونی ٹیم کے لوگوں کو اُن کے کام کی وجہ سے جان سے مار دینے کی دھمکیاں ملیں اور دیگر طریقوں سے ہراساں کیا گیا۔
ماریطانیہ: محمد علی الحیر کے وکالتی کام سے غلامی کا شکار ہونے والے افراد کے اراضی کے حقوق کے حصول میں مدد ملی۔ انہوں نے اِن حالات میں شدید قانونی جنگیں لڑیں اور جیتیں جب حکومت ملک میں غلامی کی موجودگی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیتی تھی۔ زمین کی مالکیت کے مسائل سے نمٹنے کے لیے وہ غلام بنائے گئے افراد اور افریقی نژاد ماریطانویوں کے دیگر طبقات کی مدد کرنے کے لیے بہترین طریقہائے کار بھی شیئر کرتے رہتے ہیں۔
عوامی جمہوریہ چین: ڈنگ جاشی نے ‘نیو سٹیزنز موومنٹ’ کے نام سے شہریوں کی ایک نئی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس کے تحت مقامی انتخابات لڑنے والے آزاد امیدواروں اور اصلاحات کی حمایت کی جاتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اپنی فعالیت کی وجہ سے وہ 2019 سے مقدمے چلائے جانے سے پہلے کی حراست میں ہیں۔ 2022 میں اُن پر خفیہ طور پر مقدمہ چلایا گیا۔ اِس مقدمے کے فیصلے کا آج تک اعلان نہیں کیا گیا۔
ٹوگو: ایکوے ڈیوڈ جوزف ڈوسے سرجن ہیں۔ وہ 15 برس سے زائد عرصے سے نا انصافی کے خلاف جنگ کر رہے ہیں۔ انہوں نے مختلف قسم کے طبی عملے کے اراکین کے لیے کام کرنے کے بہتر حالات پیدا کرنے میں مدد کی۔ آج کل وہ مغربی افریقہ میں صدارتی عہدوں کی مدت طے کرنے پر کام کر رہے ہیں۔