انسانی حقوق کے محافظین کی مدد کرنا

ای تھنزر مانگ برما میں انسانی حقوق کے دفاع کے لیے اپنے کام کی وجہ سے حکام سے چھپی ہوئی ہیں۔ انہوں نے صحافی عورتوں کے اتحاد کو بتایا کہ “اگر مجھے کبھی گرفتار کیا گیا تو پھر وہ مجھے مار ڈالیں گے۔”

 ایک عورت مائکروفون کے ذریعے بات کر رہی ہے (© Sai Aung Main/AFP/Getty Images)
ای تھنزر مانگ کی 2020 کی ایک تصویر۔ انہیں طالبعلموں کی یونیوں پر پابندی لگانے والے قانون کی مخالفت کرنے پر 2015 میں بھی قید کیا گیا تھا۔ (© Sai Aung Main/AFP/Getty Images)

وہ  برما میں 2021 کی برمی فوج کی بغاوت کے بعد پیدا ہونے والی پرامن عوامی مزاحمت کی علامت ہیں۔ بغاوت کے بعد کی حکومت نے اُن کی پرامن جمہوریت نواز سرگرمیوں کی وجہ سے اُن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر رکھے ہیں۔

ای تھنزر مانگ کا شمار دنیا بھر میں پھیلے انسانی حقوق کے اُن بہت سے محافظیں میں ہوتا ہے جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو فروغ دینے کی وجہ سے خطرات کا سامنا کر رہے ہیں۔

اِن میں بعض کو قید میں ڈال دیا گیا ہے۔ دیگر امتیازی سلوک، دھمکیوں، جبری گمشدگیوں، تشدد، اور جنسی تشدد کا سامنا کر رہے ہیں یا ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بنے ہیں۔ انسانی حقوق کے محافظوں کے اہل خانہ اور پیارے بھی اکثر خطرات سے دوچار رہتے ہیں۔

انسانی حقوق کے محافظین کون ہیں؟

اکیلے یا گروپوں کی شکل میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے محافظ افراد عالمی طور پر تسلیم شدہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے فروغ اور تحفظ کا پرامن طریقے سے پرچار کرتے ہیں۔ اُن کا تعلق کسی بھی علاقے، سماجی طبقے یا پس منظر سے ہوسکتا ہے اور وہ مسائل کے ایک وسیع سلسلے پر کام کرتے ہیں۔

انسانی حقوق کے محافظین:

  • سیاسی قیدیوں کی رہائی کے لیے دبائو ڈالتے ہیں۔
  • آزادانہ اور منصفانہ انتخابات، جمہوری اصلاحات اور قانون کی حمایت کا پرچار کرتے ہیں۔
  • بدعنوانیوں کو منظرعام پر لاتے ہیں اور زمین اور ماحولیات کی ذمہ دارانہ پالیسیوں کو فروغ دیتے ہیں۔
  • عدم برداشت اور امتیازی سلوک کا مقابلہ کرتے ہیں۔
  • جھگڑوں کی روک تھام کرتے ہیں اور اِن کے ظالمانہ اثرات کو ختم کرتے ہیں۔
 مائکروفون کے ذریعے تقریر کرتی ہوئی ایک عورت (© Samuel Corum/Anadolu Agency/Getty Images)
میلی بوگو مولیف (© Samuel Corum/Anadolu Agency/Getty Images)

مندرجہ بالا چند ایک شعبوں کا شمار اُن شعبوں میں ہوتا ہے جن میں انسانی حقوق کے کارکن آزادی، خوشحالی اور امن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

انسانی حقوق کے بعض محافظین اِس مقصد کے لیے تب متحرک ہوئے جب اُن کے اپنے یا ان کی کمیونٹی کے کسی رکن کے حقوق کی خلاف ورزیں کی گئی۔

بوٹسوانا کی قومی باسکٹ بال ٹیم کی سابق کھلاڑی میلی بوگو مولیف اپنے بوائے فرینڈ کی آٹھ گولیوں کا نشانہ بنیں۔ اس واقعے کے بعد وہ معذوروں کے حقوق اور صنفی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد کے خلاف بذات خود ایک سرگرم کارکن بن گئیں۔ اب وہ خواتین اور لڑکیوں کو “تشدد کی صورت میں باہر نکلنے” کی ترغیب دینے کے لیے ورکشاپوں اور تربیتی پروگراموں کو استعمال کرتی ہیں۔

کارمین گورگے رومانیہ میں امتیازی سلوک کا سامنا کرنے والی خواتین اور اقلیتی گروہوں، خاص طور پر روما کمیونٹی کا دفاع کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ “میں سمجھتی ہوں کہ روما خواتین کی حیثیت سے نہ صرف اِس برادری کے اندر بلکہ معاشرے میں بھی اپنے مقام کا ازسرنو تعین کرنا ہمارے لیے انتہائی ضروری ہے۔”

امریکہ انسانی حقوق کے محافظین کی مدد کس طرح کرتا ہے؟

انسانی حقوق کے محافظوں کی حفاظت اور حمایت کرنا امریکی خارجہ پالیسی کی ایک بنیادی ترجیح ہے۔

محکمہ خارجہ انسانی حقوق کے محافظین کو مندرجہ ذیل سمیت کئی ایک طریقوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے اور اِن کی مدد کرتا ہے:-

  • دنیا بھر میں انسانی حقوق کے محافظوں کے حالات کو دستاویزی شکل میں لانا اور رپورٹ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں انسانی حقوق کے طریقوں پر ہر ملک کی سالانہ انفرادی رپورٹ میں شامل کرنا۔
  • انسانی حقوق کے محافظوں کے ساتھ باقاعدہ رابطے میں رہنا اور جب وہ درخواست کریں تو بین الاقوامی تحفظ حاصل کرنے میں اُن کی مدد کرنا۔
  • ہم خیال حکومتوں، اقوام متحدہ اور علاقائی/بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کے محافظوں کو لاحق خطرات سے نمٹنا اور ان کی سرگرمیوں کو محدود کرنے والے قوانین کی حوصلہ شکنی کرنا۔

انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے فروغ اور تحفظ میں انسانی حقوق کے محافظوں کی طرف سے ادا کیے جانے والے اہم کردار کو اجاگر کرنے اور اس کے اعتراف کے طور پر بائیڈن انتظامیہ نے دسمبر 2021 میں انسانی حقوق کے محافظین کا ایوارڈ” دوبارہ شروع کیا ہے۔ 2022 کا ایوارڈ حاصل کرنے والے افراد کو ایوارڈ دینے کی تقریب فروری 2023 میں منعقد کی جائے گی۔

اس کے علاوہ امریکہ اپنے جرائتمند عورتوں کے “انٹرنیشنل ویمن آف کریج” نامی ایوارڈ کے ذریعے انسانی حقوق کے محافظوں کی عزت افزائی بھی کرتا ہے۔ ای تھنزر مانگ، میلی بوگو مولیف  اور گورگے سب یہ ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں شامل ہیں۔

محکمہ خارجہ 10 دسمبر کو انسانی حقوق کا دن بھی مناتا ہے۔ اس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 1948 میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کو منظور کرنے کی یاد منائی جاتی ہے۔ اس دستاویز میں اُن انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کو جامع انداز سے بیان کیا گیا ہے جن کا ہر فرد حقدار ہے۔

صدر بائیڈن نے اس اعلان کو “ایک ایسی بنیادی دستاویز قرار دیا جو اکثر چشم پوشی یا نظر انداز کیے جانے والے اِس سچ کا اعلان کرتا ہے کہ ‘تمام انسان آزاد پیدا ہوتے ہیں اور وقار اور حقوق میں برابر ہوتے ہیں۔'”

اگلے برس اِس اعلامیے کی منظوری کو 75 سال ہو جائیں گے۔ اقوام متحدہ اِس اعلامیے کی میراث کو “فروغ دینے اور تسلیم کرنے” کے لیے پورا سال چلنے والی ایک مہم کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ 2023 کے دوران محکمہ خارجہ پوری دنیا میں انسانی حقوق کے محافظین کی خدمات کو اجاگر کرے گا۔