
دنیا کے معروف موسیقار آندرے سخاروف کو خراج تحسین پیش کریں گے۔ امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والے سخاروف نامور سائنس دان ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے ایک نامور سرگرم کارکن بھی تھے۔ امن اور انسانیت کے بارے میں اُن کے نظریات کی صدائے بازگشت اُن کی موت کے 30 برس بعد آج بھی دنیا میں سنائی دیتی ہے۔v

نیو یارک کے کارنیگی ہال میں 21 مئی کو ہونے والا پروگرام بنیادی طور پر سخاروف کی 100 ویں سالگرہ کے موقع پر 2021 میں ہونا تھا۔ مگر کووڈ-19 کی وجہ سے اس پروگرام کو ملتوی کرنا پڑا۔
تاتیانا ینکلے وِچ ہارورڈ یونیورسٹی کی محقق ہیں۔ وہ سخاروف کی سوتیلی بیٹی ہیں۔ جبکہ یویگنی کسین پیانو نواز ہیں۔ انہوں نے کارنیگی میں ایک اعزازی کنسرٹ پیش کرنے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا۔
ینکلے وِچ نے شیئر امیریکا کو بتایا کہ “سخاروف عالمی سطح کے ایک صاحبِ بصیرت اور انسان دوست شخص تھے۔ سائنس دان اور سیاسی فلسفی، دونوں حیثیتوں میں اُن کے نظریات نے سائنس اور انسانی حقوق کے بارے میں ہمارے نقطہائے نظر کو ایک نئی جہت عطا کی۔”

کسین کا آبائی شہر ماسکو ہے۔ مگر اب وہ پراگ میں رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سخاروف کے “نظریات اور اخلاقی اتھارٹی ماضی کی نسبت آج کہیں زیادہ” معانی رکھتے ہی
ماہر طبیعیات سے منحرف تک

سخاروف نے ماہر طبیعیات کے طور پر تربیت حاصل کی۔ انہوں نے سوویت یونین کی ہائیڈروجن بم بنانے میں مدد کی۔ بعد میں انہوں نے جوھری ہتھیاروں کے نتائج کے بارے میں تنبیہ کی اور ذاتی آزادی پر عائد پابندیوں کی وجہ سے سوویت معاشرے پر تنقید کی۔

1968 میں روزنامہ نیویارک ٹائمز کے لیے تحریر کردہ اپنے ایک یادگار مضمون میں انہوں نے لکھا کہ خوش قسمتی سے جو لوگ آزاد معاشروں میں رہ رہے ہیں، انہیں بند معاشروں میں رہنے والے لوگوں کی آزادی کے لیے لڑنا چاہیے۔
1970 میں سخاروف نے انسانی حقوق اور سیاسی مقدمات کا سامنا کرنے والوں کا دفاع کرنے والوں کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ انہوں نے سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ یورپی یونین ہر سال ان کے نام سے منسوب انسانی حقوق کا ایوارڈ دیتی ہے۔
جب انہیں 1975 میں امن کا نوبیل انعام دیا گیا تو کمیٹی نے سخاروف کو “انسانیت کا ضمیر” قرار دیا۔ مگر سوویت رہنماؤں نے انہیں یہ ایوارڈ وصول کرنے کے لیے ناروے جانے کی اجازت نہ دی۔

قربانیاں دینا
سخاروف زندگی بھر اس وقت بھی اپنی آواز بلند کرتے رہے جب سنگین نتائج واضح طور پر سامنے نظر آ رہے ہوتے تھے۔ انہوں نے افغانستان پر 1979 کے سوویت حملے پر تنقید کی جس کے نتیجے میں انہیں اپنے تمام تر سرکاری اعزازات سے محروم ہونا پڑا اور انہیں ملک کے اندر جلاوطن کر کے سوویت یونین کے بند شہر گورکی بھیج دیا گیا۔ میخائل گورباچوف نے 1986 میں انہیں ماسکو واپس آنے کی اجازت دی۔
مارچ 1989 میں سخاروف نئی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے اور انہوں نے جمہوری اپوزیشن کی مشترکہ قیادت کی۔ اسی سال سخاروف کا انتقال ہوا۔
ینکلے وِچ نے کہا کہ “انہیں اس بات کی سمجھ تھی کہ اُن کے خلاف انتقامی کاروائیاں کی جائیں گیں۔ اگر انہیں اِن کا پیشگی طور پر پتہ بھی چل جاتا تو میرا خیال نہیں کہ وہ اپنا ذہن بدل لیتے۔”
جنوری 2023 میں روسی حکومت نے ماسکو میں انسانی حقوق کے ادارے سخاروف سینٹر کو “ناپسندیدہ” قرار دیا اور اسے بند کرنے پر مجبور کیا۔ سخاروف کے ذاتی کاغذات ہارورڈ یونیورسٹی میں محفوظ ہیں۔

سخاروف کا آزادی کے ساتھ لگاؤ آج بھی دنیا بھر میں بہت سے لوگوں کو متاثر کر رہا ہے۔
2015 میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری اے کسنجر نے سخاروف کو “ایک ایسی زبردست شخصیت قرار دیا جس کا سوویت یونین میں انسانی وقار کے تحفظ پر دلیرانہ اصرار دنیا میں آزادی کی منزل کے حوالے سے دور رس تبدیلیوں ک باعث بنا۔”
2021 کے اپنے ایک خط میں صدر بائیڈن نے “ڈاکٹر آندرے سخاروف کے کام اور تادیر قائم رہنے والے ورثے کے لیے امریکی عوام کی گہری ستائش” کا اظہار کیا۔
جمہوریت کے لیے کام کرنے والی غیرمنفعتی امریکی تنظیم ‘یو ایس نیشنل اینڈؤمنٹ فار ڈیموکریسی’ نے 2021 میں اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ ” سخاروف کے امن اور انسانی حقوق کے تصور کو عملی شکل دینے کی خاطر سرگرم کارکن، صحافی، وکلاء، اور عام شہری بھاری قیمت چکانے کے باوجود [آج بھی] جرائتمندی سے اپنا اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔”
نیویارک میں قائم روسی زبان بولنے والے امریکیوں کی شہری اور انسانی حقوق کی ایسوسی ایشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر، دمتری ڈینیئل گلنسکی نے سخاروف کے اثر و رسوخ کا موازنہ مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور نیلسن منڈیلا سے کیا۔
گلنسکی نے شیئر امیریکا کو بتایا کہ “سخاروف اور اُن کی انسانی حقوق کی مہم سرد جنگ کے حقیقی فاتح ہیں۔”