
پوری دنیا کے کے لوگ انسانی سمگلنگ کا شکار ہوتے ہیں۔ اس جرم کے خلاف جنگ میں اور اس سے متاثر ہونے والے افراد کی معمول کی زندگیوں کی بحالی میں مدد کرنے والوں میں وہ لوگ قائدانہ کردار ادا کر رہے ہیں جو بذات خود اس جرم کا نشانہ بن چکے ہیں اور ایسے لوگوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اس جرم کا ارتکاب کرنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو جبری مشقت یا جنسی سمگلنگ کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے ہمیں محنت کی بین الاقوامی تنظیم کے تخمینوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن کے مطابق 2021 میں انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی تعداد کسی بھی وقت ذیل میں دی گئی تعداد سے کم نہیں رہی:-
- جرمانے یا جسمانی نقصان کے خوف سے فیکٹریوں یا فارموں پرگھریلو نوکروں کے طور پر کام کرنے والے 21 ملین افراد۔
- بالغ افراد اور بچوں سمیت جنسی صنعت میں حصہ لینے پر مجبور کیے گئے 6 ملین افراد جِن میں عورتوں کی تعداد 99٪ تھی۔

2010 کے بعد سے تمام امریکی صدور جنوری کو انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے قومی مہینے کے طور پر مناتے چلے آ رہے ہیں۔ 11 جنوری انسانی سمگلنگ سے آگاہی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ (ہوم لینڈ سکیورٹی کا محکمہ 11 جنوری کو سوشل میڈیا پر نیلے رنگ کا لباس پہننے کے ہیش ٹیگ #WearBlueDay کی میزبانی کرے گا۔)
انسانی سمگلنگ کا نشانہ بننے والوں کا دوسروں کو محفوظ رکھنا

انسانی سمگلنگ کا نشانہ بننے والے دو افراد نے انسانی سمگلنگ کے بارے میں شیئر امریکا سے بالخصوص نوجوان لوگوں کے حوالے سے بات کی۔
تانیا گولڈ ریاست ورجینیا کے اٹارنی جنرل کے دفتر میں انسانی سمگلنگ کے انسداد کی ڈائریکٹر ہیں اور وہ ریاستی ردعمل میں انسانی سمگلنگ کے متاثرین کا نقطہ نظر لے کر آتی ہیں۔
گولڈ کا کہنا ہے کہ والدین کو “انٹرنیٹ پر سرپرستانہ” نظر رکھنا چاہئے کیونکہ انسانی سمگلر عام طور پر نوجوانوں کی تلاش آن لائن جا کر ہی کرتے ہیں۔” اپنے بچوں کو سکھائیں کہ جنس کی خرید ایک غلط فعل ہے۔ سب چیزیں بیچنے کے لیے نہیں ہوتیں اور جنس اور قربت انمول ہوتی ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ سکولوں کے عملے کو سمگلروں اور ان کے زیر اثر نابالغ بچوں کی شناخت کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ بچوں کی نگرانی کرنے والے بالغ افراد کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ انسانی سمگلنگ کے مشتبہ معاملات کی اطلاع دینے کے طریقہائے کار کو کیسے استعامال کیا جاتا ہے۔
والدین اور بچوں کے سرپرست انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والوں کی ویڈیوز دیکھ کر، اُن کی کہانیاں سنا کراور اُن ایپس کے بارے میں سیکھ کر اپنی معلومات میں اضافہ کر سکتے ہیں جنہیں سمگلر نوجوانوں سے رابطہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گولڈ کہتی ہیں کہ “انٹرنیٹ کے حفاظتی وسائل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانیے اور ایسے محفوظ خفیہ کوڈ بنائیں” جو بچے بوقتِ ضرورت ٹیکسٹ کر سکیں۔ فون سے بھیجی گئی ایک علامت یا لفظ سے آپ جان سکتے ہیں کہ آپ کا بچہ خطرے میں ہے۔
خطرے کی پہچان
رچمنڈ، ورجینیا کی ہولی آسٹن گبز انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والوں کے حقوق کی پرزور حامی اور Walking Prey: How America’s Youth are Vulnerable to Sex Slavery [چلتا پھرتا شکار؛ جنسی غلامی کے خطرات سے دوچار امریکی نوجوان] کے عنوان سے ایک کتاب کی مصنفہ ہیں۔ وہ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے عملے کو متاثرین کی شناخت کرنے اور اُن کی مدد کرنے کے حوالے سے ‘کامن سپرٹ ہیلتھ’ نامی ہسپتال کے سلسلے کے انسانی سمگلنگ سے نمٹنے کے پروگرام کی رہنمائی کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ “سمگلر چھوٹی بڑی ہر عمر کے متاثرین کو تجارتی بنیادوں پر جنسی فعل کرنے یا مشقت یا دیگر کام کرنے پر آمادہ کرنے کے لیے طاقت، دھوکہ دہی یا جبر کا استعمال کرتے ہیں۔” لوگوں کو جھانسہ دے کر پھنسانے کے مقبول طریقے کے تحت سمگلر پہلے لوگوں کے ساتھ شفقت اور توجہ سے پیش آتے ہیں اور لوگوں کو گھر سے بھاگنے کی ترغیب دیتے ہیں اور بعد میں اُن پر تشدد کرتے ہیں۔
کسی بھی عمر، نسل، ذات، جنس یا صنفی شناخت کے حامل افراد سمگلروں کا شکار بن سکتے ہیں۔ گبز بتاتی ہیں کہ سمگلر کسی مخصوص صورت حال سے دوچار افراد کو نشانہ بناتے ہیں۔ اس ضمن میں گبز نے تازہ نقل مکانی کرنے والوں، غیرقانی یا مشکلات کا شکار تارکین وطن، مقامی زبان نہ بول سکنے والوں یا سماجی یا خاندانی مدد سے محروم افراد کا حوالہ دیا۔ گو کہ عورتیں اور بچے سب سے زیادہ غیر محفوظ ہوتے ہیں تاہم پوری دنیا میں کسی بھی جگہ مرد بھی اِس جرم کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
گبز نے کہا کہ والدین، اساتذہ اور نوجوانوں کو سمگلروں کے ہتھکنڈوں کے بارے میں آگاہ کرنے اور خطرات کو کم کرنے کے لیے معاشرتی بنیادوں پر مبنی پروگراموں کو عملی جامہ پہنانا ضروری ہے۔

گبز نے انسانی سمگلنگ کا نشانہ بننے والے افراد کو اعتماد میں لے کر کام کرنے والی دو تنظیموں کا حوالہ دیا۔ اِن میں سے ایک انسانی سمگلنگ کا نشانہ بننے والوں کی قیادت میں چلنے والی بین الاقوامی تنظیم سروائیور الائنس اور دوسری سمگلنگ اور غللامی کے خاتمے کا کولیشن ٹو ابالش سلیوری اینڈ ٹریفکنگ نامی اتحاد ہے جو نیشنل سروائیور نیٹ ورک کے نام سے ایک پروگرام چلاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ “اگر آپ انسانی سمگلنگ کا نشانہ بنے ہیں تو برائے مہربانی خاموش رہ کر دکھ نہ جھیلیں۔”