انسانی سمگلنگ کے خلاف جنگ کے ہیرو

ایوانکا ٹرمپ تقریر کر رہی ہیں اور اُن کے ایک طرف سفیر رچمنڈ اور دوسری طرف وزیر خارجہ پومپیو کھڑے ہیں۔ (State Dept./Freddie Everett)
صدر کی مشیر، ایوانکا ٹرمپ انسانی سمگلنگ کی سال 2020 کی رپورٹ کے اجرا کی تقریب کے دوران امریکی محکمہ خارجہ مِن تقریر کر رہی ہیں۔ (State Dept./Freddie Everett)

محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے جہاں حکومتوں نے اپنے ہاں انسانی سمگلنگ کے ملزموں کو سب سے زیادہ تعداد میں سزائیں دی ہیں اور زبردستی مشقت کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں سال 2019 کے دوران سب سے زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے وہیں بعض مخصوص حکومتیں خود انسانوں کی سمگلنگ کر رہی ہیں۔

25 جون کو جاری کی جانے والی 2020ء کی انسانوں کے سمگلنگ کی رپورٹ میں امریکہ سمیت 188 ممالک اور علاقہ جات کا انسانی سمگلنگ سے نمٹنے کی اُن کی کوششوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا کہ انسانی سمگلنگ — اور اس میں جبری مشقت اور جنسی سمگلنگ بھی شامل ہے — یہ ہم سب کے اردگرد ہر جگہ ہو رہی ہے، حتٰی کہ یہاں امریکہ میں بھی۔ انہوں نے کہا، “دنیا بھر میں 25 ملین بالغ افراد اور بچے مشقت اور جنسی سمگلنگ کے شکار ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ انسانوں کی سمگلنگ “حقیقی معنوں میں ایک مکروہ حرکت ہے۔”

شنجیانگ میں چین کی جانی پہچانی نظربندی اور مسلمان اقلیتوں کی جبری مشقت کے علاوہ، چین اپنے ‘بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے‘ پر دنیا بھر میں لوگوں کو کام کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ کیوبا کی حکومت کے زیرانتظام چلنے والے طبی مشنوں میں دنیا کے 60 سے زائد ممالک میں کام کرنے والے 50,000 کے قریب ڈاکٹروں کا بھی جبری مشقت سے متاثر ہونے کا احتمال ہے۔

رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اچھی خاصی تعداد میں دنیا کے ممالک مجرموں کو قید کی سزاؤں کی بجائے معطل شدہ سزائیں دے رہے ہیں یا جرمانے کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں اُن مجرموں کو بامعنی سزائیں نہیں ملتیں جن کے جرم ثابت ہو چکے ہوتے ہیں۔

رپورٹ جاری کیے جانے کی ایک تقریب میں پومپیو، صدر کی مشیر، ایوانکا ٹرمپ اور محکمہ خارجہ کے انسانی سمگلنگ کے انسداد اور اس پر نظر رکھنے کے دفتر کے سربراہ، سفیر جان کاٹن نے انسانوں کی سمگلنگ (ٹی آئی پی) کی رپورٹ کے ہیروز کی حیثیت سے مندرجہ ذیل 10 افراد کو انسانی سمگلنگ کے خلاف جنگ میں اُن کی خدمات کے حوالے سے خراج تحسین پیش کیا:

درخت کے ساتھ تصویر کھچوانے کے لیے کھڑی سوفی اوٹینڈے (© Matilde Simas)
ٹی آئی پی 2020 کی ایک ہیرو، کینیا کی سوفی اوٹینڈے نے رپورٹ کے اجرا کی تقریب میں تقریر کی۔ (© Matilde Simas)

لیفٹننٹ کرنل کرما رگزین بھوٹان میں انسانی سمگلنگ کے خلاف جنگ کی بہت بڑی حامی ہیں۔ انہوں نے انسانی سمگلنگ کی تحقیقات کو بھوٹان کی شاہی پولیس کے عورتوں اور بچوں کے تحفظ کے ڈویژن کا بنیادی مقصد قرار دیا۔ وہ اس ڈویژن کی سربراہ ہیں۔

سرکاری وکیل، آری واریلا اور عدالتی پولیس کے ناٹالینو کورایا کی محنت سے کابو وردی میں انسانی سمگلنگ کا پہلا سرکاری مقدمہ قائم ہوا۔ اس مقدمے میں مدعا علیہان پر انسانی سمگلنگ کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا۔

جامع ترقی کے فروغ کے الشہاب انسٹی ٹیوٹ کی بانی، رضا شکر ہر سال اپنے انسٹی ٹیوت کے ذریعے مصر میں انسانی سمگلنگ کے شکار ہونے والے سینکڑوں افراد کی قانونی مدد، سماجی خدمات، نفسیاتی مدد اور دستکاری کی تربیت حاصل کرنے میں مدد کرتی ہیں۔

2015ء کے بعد سے سرکاری وکیل کی حیثیت سے انسانی سمگلنگ کے متاثرہ افراد کی نمائندگی کرتے ہوئے، پیٹریشیا ہو نے ہانگ کانگ میں انسانی سمگلنگ کے قانون کے بارے میں آگاہی میں اضافہ کیا اور اس کا شکار ہونے والے افراد کے ساتھ اچھے برتاؤ کی حمایت کی۔

نینا بالاباییوا نے قازقستان میں اُس غیرمنفعتی تنظیم کی بنیاد رکھی اور اس کی فنڈنگ بھی کی جو انسانی سمگلنگ کا خاتمہ کرنے کے لیے وقف ہے اور انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کے لیے ایک پناہ گاہ کا کام بھی کرتی ہے۔ اب تک یہ تنظیم 16,000 افراد کی مدد کر چکی ہے۔

سوفی اوٹینڈے نے کینیا میں انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کے لیے خصوصی طور پر وقف پہلی پناہ گاہ کا ڈھانچہ تیار کیا،۔ اس کے علاوہ انہوں نے انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والوں کی مدد کے لیے علاقائی اصول تیار کرنے کے کام کی بھی قیادت کی۔ 2014ء سے لے کر اب تک وہ کینیا کے اندر اور کینیا سے باہر 400 متاثرہ افراد کی مدد کر چکی ہیں۔

لاتھویا کی حکومت کی انسانی سمگلنگ کی رابطہ کار کی حیثیت سے لاتھویا کی لاسما سٹابینا نے انسانی سمگلنگ کے نظراندز کیے جانے والے مسئلے یعنی جعلی شادیوں کی جانچ پڑتال بڑھانے میں یورپی یونین کی مدد کی۔ انہوں نے شدید مالی پریشانیوں کے باوجود کام جاری رکھنے کے لیے فنڈنگ کے نئے طریقے تلاش کیے جس کی وجہ سے وہ انسانی سمگلنگ کے خاتمے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

2015ء میں ملاوی کے انسانی سمگلنگ کے قانون کی منظوری کے پیچھے ایک متحرک قوت کی حیثیت سے، میکس ویل میٹویر اس پر مکمل طور پرعمل درآمد کرانے کی وکالت کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم کی بنیاد بھی رکھی جو بچوں کے حقوق کی حمایت، تحقیق اور تحفظ کے لیے وقف ہے۔

مالدووا کی اوکسانا الستراتووا نے جو بذات خود بھی انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والی تھیں، ٹرانس نسٹریا میں انسانی سمگلنگ کے بارے میں آگاہی میں اضافہ کرنے کے لیے پہلی غیرسرکاری تنظیم کی بنیاد رکھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مقامی نمائندوں کو انسانی سمگلنگ کے خلاف قوانین منظور کرنے پر بھی قائل کیا۔ انہوں نے انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کے لیے ایک ہاٹ لائن قائم کر رکھی ہے۔ ایک اور ہاٹ لائن گھریلو تشدد کا شکار ہونے والے افراد کے لیے ہے۔

ایوانکا ٹرمپ نے کہا، “یہ سال انسانی سمگلنگ کے خلاف ہماری جنگ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔” اس ضمن میں انہوں نے 20 سال قبل انسانی سمگلنگ کے شکار ہونے والے افراد کے تحفظ کے قانون کی منظوری کا ذکر کیا۔ صدر ٹرمپ اور انتظامیہ اُس جنگ کو جاری رکھنے کا پختہ عزم کیے ہوئے ہیں جو” تمام تر کریہہ اور بد شکلوں میں پائی جانے والی انسانی سمگلنگ کے خلاف” لڑی جا رہی ہے۔