احتجاجی مظاہریں مارچ کرتے ہوئے (© AP Images)
برما کی فوج نے فروری 2021 کی بغاوت کے بعد اپوزیشن کو دبانے کی کوشش میں انٹرنیٹ تک رسائی بند کر دی تھی۔ اوپر دی گئی تصویر میں مظاہرین مئی 2021 میں رنگون میں بغاوت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ (© AP Images)

جب مارچ میں روسی صدر ولاڈیمیر پیوٹن کی افواج نے یوکرین کے شہر کھیرسن کا محاصرہ کیا تو انہوں نے یوکرینیوں کی آزاد خبروں تک رسائی کو بند کر دیا اور ویب ٹریفک کو سنسر کرنا شرع کر دیا۔

فروری 2021 کی بغاوت میں برما کی فوج کے اقتدار پر قبضے کے بعد فوج نے بغاوت کی چاروں طرف پھیلی عوامی مخالفت کو کمزور کرنے اور برما کے لوگوں کے خلاف جاری مظالم کی رپورٹنگ کو روکنے کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی بند کردی تھی

دونوں صورتوں میں انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کی نگرانی کرنے والوں نے اُن معلومات کو حاصل کرنے، وصول کرنے اور فراہم کرنے کی آزادی کے خلاف آمرانہ کاروائیوں کو بے نقاب کیا جو کہ انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ میں درج آزادی اظہار کے حق کا حصہ ہیں۔

“میانمار آئی سی ٹی فار ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن” اور “اوپن آبزرویٹری آف نیٹ ورک انٹرفیئرنس” (او او این آئی) نامی تنظیموں کا شمار ان مٹھی بھر کمپنیوں، غیر منافع بخش گروپوں اور تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے جنہوں نے فروری 2021 کی فوجی بغاوت کے فوراً بعد اور اس کے بعد آنے والے مہینوں میں برما میں انٹرنیٹ سنسرشپ کی نگرانی کی اور اس کے بارے میں دنیا کو آگاہ کیا۔

ڈگ میڈری کیلی فورنیا میں قائم “کینٹک” نامی کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ اس کمپنی نے روس کے زیر کنٹرول یوکرینی شہر کھیرسن میں یوکرین کے انٹرنیٹ ڈیٹا میں روس کی طرف سے کی جانے والی گڑبڑکا پتہ چلایا۔ 9 اگست کو ایک بلاگ پوسٹ میں میڈری نے کہا کہ روس کے یوکرین کی سائبر سپیس کے اغوا کے بعد کریملن “[یوکرین کے] بیرونی دنیا کے ساتھ قائم مواصلاتی نظاموں کی جاسوسی کرنے، مداخلت کرنے اور روکنے کے قابل ہوگیا۔”

میڈری نے مزید کہا کہ “اس صورت حال نے کھیرسن کے شہریوں، بالخصوص شہر پر قبضے کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے لیے سنگین خطرات پیدا کر دیئے ہیں۔”

انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی کی نگرانی کرنے والے یہ لوگ دور سے اور موقع  پر کی جانے والی نگرانیوں کے ذریعے انٹرنیٹ کی بندشوں کو بے نقاب کرتے ہیں اور دنیا بھر کے شہریوں کو اُن کے ممالک میں کنیکٹیویٹی پر نظر رکھنے کے لیے ڈیجیٹل وسائل فراہم کرتے ہیں۔

اِن کی کوششیں اُس وقت سامنے آئیں جب بہت سی حکومتوں نے انٹرنیٹ بند کرنے شروع کر دیئے۔ ابلاغ عامہ کی آزادی پر نظر رکھنے والی تنظیم “فریڈم ہاؤس” اِن بندشوں کو ایک ایسا سفاکانہ ہتھکنڈہ قرار دیتی ہے جس کے  معاشرے پر “ناقابل یقین حد تک دور رس اور تباہ کن اثرات” مرتب ہو سکتے ہیں۔

نیویارک کے “ایکسیس ناؤ” نامی ڈیجیٹل حقوق کے گروپ کے مطابق سال 2021 میں 34 ممالک میں انٹرنیٹ کی کم از کم 182 بندشیں رپورٹ کی گئیں۔ 2020 میں کی جانے والی بندشوں کے مقابلے میں2021 میں 159 بندشیں زیادہ کی گئیں۔ 2011 میں “ایکسیس ناؤ” نے “رائٹس کون” کے نام سے ڈیجیٹل دور میں انسانی حقوق کے بارے میں ایک سالانہ چوٹی کی کانفرنس کا آغاز کیا جس میں آن لائن حکومتی سنسرشپ کی مخالفت کرنے والی سینکڑوں تنظیموں کو شرکت کی دعوت دی جاتی ہے۔

امریکہ اور شراکت دار ممالک آن لائن معلوماتی آزادی کے “فریڈم آن لائن کولیشن” نامی اتحاد کے ذریعے سب کے لیے کھلے، قابل اعتماد اور محفوظ انٹرنیٹ کی حمایت کرتے ہیں۔ 2023 میں پہلی بار امریکہ 34 ممالک پر مشتمل اس اتحاد کی سربراہی کرے گا جو پوری دنیا میں سب کے لیے آزادانہ اظہار، آزاد میل جول، پرامن اجتماع اور آن لائن رازداری کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔

امریکی سرکاری ادارے اور نجی شعبہ بھی مغربی نصف کرے اور افریقہ میں انٹرنیٹ تک رسائی کو بڑھانے کے لیے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ امریکہ نے یوکرین کو سائبرسکیوریٹی میں انتہائ اہم مدد فراہم کی جس سے روس کی ظالمانہ اور غیر منصفانہ جنگ کے دوران ملک کو آن لائن رہنے میں مدد ملی ہے۔

7 جون کو “رائٹس کون” کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے ان لوگوں کی تعریف کی جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کرتے ہیں کہ “ٹیکنالوجی کا مستقبل اور انٹرنیٹ کا مستقبل وہ ہو جو حقیقی معنوں میں آزادی کو فروغ دیتا ہو، جو جمہوری اصولوں کو پروان چڑھاتا ہو، اور اس بات کو یقینی بناتا ہو کہ ہم سب مل کر ایک ایسا مستقبل تعمیر کر سکیں جو ہماری مشترکہ اقدار کی عکاسی کرتا ہو۔”