(State Dept./Doug Thompson)

آزادی اظہار امریکہ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اب جبکہ ٹیکنالوجی نے لوگوں پر اظہار کی نئی راہیں کھول دی ہیں تو ایسے میں آزادی کے تحفظ کا مطلب محض کتابوں، اخبارات، ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر اظہار کا تحفظ ہی نہیں بلکہ انٹرنیٹ پر جو کچھ ہے اُس کا تحفظ بھی اس میں شامل ہو گیا ہے۔

آئین میں پہلی ترمیم کے سبب وفاقی، ریاستی اور مقامی حکومتیں انٹرنیٹ پر مواد کو سنسر نہیں کر سکتیں۔ اس ترمیم کی رو سے آزادی اظہار محدود کرنے کے لیے کوئی قانون منظور نہیں ہو سکتا۔

وفاقی مواصلاتی کمیشن (ایف سی سی) ریڈیو، ٹیلی ویژن، وائر، سیٹلائٹ اور کیبل کے ذریعے بین الریاستی اور بین الاقوامی مواصلات کو منظم کرتا ہے۔ اگرچہ انٹرنیٹ واضح طور سے ان میں کسی زمرے میں نہیں آتا تاہم ماضی میں ‘ایف سی سی’ امریکہ میں جدید ٹیلی مواصلاتی صلاحیت کی حوصلہ افزائی کے ذریعے انٹرنیٹ پر بھی اثرانداز ہوا ہے۔

برینڈن کار ‘ایف سی سی’ کے پانچ کمشنروں میں شامل ہیں جنہیں صدر پانچ سال کے لیے مقرر کرتا ہے۔ برینڈن کار کہتے ہیں، “پہلی ترمیم کی مناسبت سے ہمارے خیال میں زیادہ سے زیادہ معلومات کا حصول ہمیشہ بہترین راہ ہے۔”

“حکومت کو انٹرنیٹ پر قانونی بات چیت کو سنسر کرنے، ہٹانے یا اسے روکنے کی طرف نہیں جانا چاہیے۔”
~ ایف سی سی کمشنر برینڈن کار

یہ سوچ دوسرے ممالک سے مختلف ہے جہاں بعض اوقات حکومت شہریوں کی مواد تک رسائی کو خود منظم کرتی ہے۔ بعض ممالک میں حکومت کسی تصویری مواد یا اظہار کو نفرت پر مبنی اور ناپسندیدہ قرار دے کر دباتی ہے۔ شمالی کوریا میں بیشتر لوگوں کو سرے سے عالمی انٹرنیٹ تک رسائی ہی حاصل نہیں۔

برینڈن کار کا کہنا ہے، “اظہار کے مواد سے متعلق موضوعی رائے دینا بے حد مشکل ہے۔ اکثر اوقات نام و نہاد نفرت پر مبنی یا دیگر تقریری مواد پر کاروائی کرنے والے سرکاری اہلکاروں کا اس مواد کے حوالے سے نکتہ نظر شہریوں یا دوسری حکومتوں سے بہت مختلف ہو سکتا ہے۔”

امریکہ میں پہلی ترمیم کا مقصد سیاسی اختلاف کو تحفظ دینا ہے۔

2012 میں اقوام متحدہ نے دبئی، متحدہ عرب امارات میں بین الاقوامی مواصلات سے متعلق عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا جس کا مقصد انٹرنیٹ کے دور میں بین الاقوامی ٹیلی مواصلاتی معاہدوں کو بہتر بنانا تھا۔ اس موقع پر امریکہ نے 80 ممالک کے بلاک کی قیادت کرتے ہوئے انٹرنیٹ کی آزادی سے متعلق مسائل پر اختلافات کے باعث ان معاہدوں میں مجوزہ تبدیلیوں پر دستخط سے انکار کر دیا۔

ٹیلی مواصلات کے شعبے سے تعلق رکھنے والے منتظم اور لاس اینجلیس میں یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے پروفیسر ٹیری کریمر نے اس کانفرنس میں امریکی وفد کی قیادت کی۔ کریمر کہتے ہیں کہ اس موقع پر سپیم کو محدود کرنے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔

وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اور بہت سے دوسرے ممالک میں سپیم کو ان چاہی کاروباری ای میل سمجھا جاتا ہے۔ کریمر نے بتایا، “اگر ہم یہ دیکھیں کہ دوسرے ممالک سپیم کا حوالہ کیسے دیتے ہیں تو در حقیقت اُن کی سپیم  سے مراد حکومتوں کے حوالے سے لوگوں کی رائے ہوتی ہے۔ اچانک آپ دیکھتے ہیں کہ جس کی حمایت کی جا رہی ہے وہ سنسرشپ ہے۔ مجھے یاد ہے کہ یہ دیکھ کر مجھ میں خوف کی ایک لہر دوڑ گئی تھی۔”

کار سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر سیاسی اختلاف رائے کو تحفظ دینے سے بالاآخر حکومت کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔

وہ کہتے ہیں، “ہمیں انٹرنیٹ پر اختلافی نکتہ ہائے نظر کے لیے جگہ کھلی چھوڑنی چاہیے۔ ہماری حکومت اور دنیا بھر کی حکومتیں اگر شہریوں کی بات سنیں تو وہ ان کے سامنے زیادہ جوابدہ بن جائیں گی۔ اگر شہری وہ کچھ نہیں پسند کرتے جو کہ حکومت کر رہی ہے تو انہیں یہ حق حاصل ہے کہ حکومت اُن کے خیالات جانے۔”