طویل عرصہ قبل کی گئی منصوبہ بندی کے تحت امریکی حکومت نے لاس اینجلس میں ” انٹرنیٹ کارپوریشن فار اسائنڈ نیمز اینڈ نمبرز کارپوریشن” ICANN (آئی سی اے این این) یعنی ناموں اور انٹرنیٹ کے نمبروں کی تفویضگی کی کارپوریشن کا اپنا محدود اختیار ایک ایسی عالمی کمیونٹی کو منتقل کر دیا ہے جس میں تمام متعلقہ ادارے اور تنظیمیں شامل ہیں۔
آئی سی اے این این [ٹاپ لیول] اعلٰی سطح کی ڈومینوں کے نام اور اعدادی ایڈریس تفویض کرتی ہے۔ صارفین کے کمپیوٹر ان ایڈریسوں کی مدد سے پوری دنیا میں موجود کسی بھی ویب سائٹ سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ جب آپ کسی براوًزر کی “ایڈریس بار” پر کوئی بھی یو آر ایل ٹائپ کرتے ہیں تو اعلٰی سطح کی ڈومین ڈاٹ کام، ڈاٹ گوو یا ڈاٹ بِز جیسے حروف پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ ڈومین ملکوں کے ناموں کے حساب سے بھی ترتیب دی گئی ہے جیسے ڈاٹ یوکے، ڈاٹ سی این یا ڈاٹ آر یو وغیرہ۔
آئی سی اے این این دنیا بھر میں پھیلی ہوئی بین الاقوامی رجسٹریوں کو عددی ایڈریس بلاکوں کی صورت میں دے دیتی ہے اور پھر انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والے ان ایڈریسوں میں سے ویب سائٹوں اور کنکشنوں کو ایڈریس تفویض کرتے جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر جب آپ اپنا براوًزر share.america.gov پر لے جاتے ہیں تو درحقیقت آپ 104.16.115.132 [عددی ایڈریس] کو وزٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ آئی سی اے این این بالعموم انٹرنیٹ کی فون بک کہلانے والے اُس ڈیٹا بیس کو چلاتی ہے جو یو آر ایل اور عددی ایڈریس کو آپس میں ملاتی ہے۔
کیا چیز تبدیل ہو رہی ہے؟
کچھ زیادہ نہیں۔ اگر آپ انٹر نیٹ استعمال کرنے والے دنیا کے تین ارب لوگوں میں سے ایک ہیں تو آپ کو اس کا پتہ بھی نہیں چلے گا۔ تکنیکی لحاظ سے امریکہ کے محکمہ تجارت کا انٹرنیٹ کی آزادانہ دستیابی اور اس کی بنیادوں کے تکنیکی استحکام کو یقینی بنانے کی خاطر، آئی سی اے این این کے ساتھ جو ٹھیکہ ہوا تھا اب اس کی تجدید نہیں کی جا رہی۔
محکمہ تجارت کا آئی سی اے این این پر نہ تو کبھی باضابطہ اختیار تھا اور نہ ہی کبھی محکمے نے اس ادارے کے فیصلوں کو ویٹو کیا ہے۔ مثلاً 2005ء میں حکومت کے عریانی کے لیے قائم کی جانے والی .xxx نامی ایک ڈومین پر اپنے خدشات کے اظہار کے باوجود، آئی سی اے این این نے یہ ڈومین جاری کی۔
اس سلسلے میں امریکہ کے رول کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب انٹرنیٹ کے ارتقائی عمل کا آغاز “آرپانیٹ” نامی اس ابتدائی امریکی نظام سے ہوا جس میں تعلیمی شعبے کے محققین کے کمپیوٹر ٹیلی فون لائنوں کے ذریعے ایک دوسرے سے بات کر سکتے تھے۔ جب نیٹ ورکوں کا نیٹ ورک بہت زیادہ وسیع ہو گیا تو وفاقی ادارے اُن سویلین سائنس دانوں اور تکنیکی ماہرین کی مدد کو آئے جو شروع کی ڈومینوں کے نام بنا رہے تھے۔
تاہم کم و بیش دو عشرے قبل واشنگٹن نے انٹرنیٹ کے تکنیکی اور پسِ منظر میں سرانجام دیئے جانے والے امور کو نجی اختیار میں دینے کی خاطر اولین اقدامات اٹھائے۔
1998ء کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا، ” امریکہ میں قائم کیا جانے والا یہ تحقیقی ذریعہ یعنی انٹرنیٹ انتہائی تیزی سے تجارت، تعلیم اور رابطے کا ایک عالمی واسطہ بنتا جا رہا ہے۔ انٹرنیٹ صارفین کی روزافزوں تعداد امریکہ سے باہر رہتی ہے اور یہ متعلقہ لوگ انٹرنیٹ کی رابطہ کاری میں ایک بڑی نمائندگی چاہتے ہیں۔”

اُسی سال قائم کی جانے والی آئی سی اے این این کے انتظام کی نوعیت ہمیشہ بین الاقوامی رہی ہے۔ اس ادارے میں 100 سے زائد ممالک کو نمائندگی حاصل ہے۔ آئی سی اے این این کا کہنا ہے کہ اُن کے تمام فیصلے اتفاقِ رائے سے کیے جاتے ہیں۔ یہ فیصلے کرتے وقت کمپیوٹر ماہرین، کاروباری مفادات، رجسٹریوں اور انٹرنیٹ فراہم کنندگان، سول سوسائٹی کے گروپوں، حکومت اور دیگر لوگوں کے مشوروں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔
بعض قانون سازوں نے محکمہ تجارت کی دستبرداری کی مخالفت کی اور یہ دلیل دی کہ اس سے جابرانہ ممالک کو انٹرنیٹ کا گلہ گھونٹنے کے مواقع مل جائیں گے۔
مگر اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ درحقیقت اس تبدیلی سے ذمہ داری ماہرینِ تعلیم، سول سوسائٹی، صارفین اور اُن لوگوں کے کاندھوں پر آن پڑی ہے جو “انٹرنیٹ کے وسیع تنوع” کی نمائندگی کرتے ہیں۔