کینیا میں برسوں سے، عورتیں زیورات بنا کر پیسے کماتی رہی ہیں۔ لیکن عالمی منڈی پیچیدہ ہے۔ منڈیوں تک رسائی اکثر آڑھتیوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، اور یہ چیز دستکاروں کی آمدنی کے مواقعے محدود کر دیتی ہے۔
2011ء میں، کینیا کی ایک کاروباری تنظیم کار، کیتھرائن ماہوگو کا خیال تھا کہ اس کام میں ٹیکنالوجی سے مد مل سکتی ہے، اور وہ یہ بات ثابت کرنے کے لیے نکل پڑِیں۔
ماہوگو نے کمپیوٹر سائنس میں گریجوایٹ ڈگری حاصل کی ہوئی ہے۔ انھوں نے دو امریکی کاروباری تنظیم کاروں، ایلا پینووِچ اور گوئنڈولِن فلوائڈ کے ساتھ مل کر سوکو کا آغاز کیا۔ یہ ای کامرس یعنی انٹرنیٹ پر کاروبار کرنے کا ایک پلیٹ فارم ہے جہاں دستکار اپںے بنائے ہوئے زیورات کو دنیا بھر میں صارفین کو عام موبائل فون کے استعمال کے ذریعے بیچ سکتے ہیں۔
ماہوگو نے سوکو کے بارے میں کہا، “یہ ایک ایسا برانڈ ہے جس سے ایک بہتر دنیا کی تشکیل میں مدد ملتی ہے۔” اُن کے یہ الفاظ کسی حد تک مارکٹنگ میں ان کی مہارت ظاہر کرتے ہیں۔

ماہوگو نے کہا کہ سوکو کا پلیٹ فارم کاروبار کے روایتی ماڈلوں سے مختلف ہے۔ کیوں کہ اس میں عورتوں کو رسد کے سلسلے کے پہلے مرحلے پر ہی عالمی منڈی تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ زیورات بنانے والی ان عورتوں کو کسی کمپیوٹر یا انٹرنیٹ کی سہولت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ بنک اکاؤنٹ تک کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ایک موبائل فون ہی ان کا مارکیٹ سے رابطہ فراہم کر دیتا ہے۔
دستکار سوکو میں اپنی رجسٹریشن کرا لیتے ہیں تا کہ وہ اپنی بنائی ہوئی اشیا کی تصاویر کو سوکو کے ای کامرس کے پلیٹ فارم پر اپ لوڈ کر سکیں۔ جب ایک صارف کوئی چیز خریدتا ہے، تو سوکو ایک کوریئر یعنی قاصد کے ذریعے منگوا کر خریدار کو بھجوا دیتا ہے۔
ماہوگو کا یہ طریقہ بڑا مقبول ثابت ہوا ہے۔ 2014ء میں 1,000 سے زیادہ دستکاروں کی رجسٹریشن کی گئی۔ انھوں نے 30 ممالک میں صارفین کو 42,000 سے زیادہ اشیاء فروخت کیں۔ صرف یہی نہیں، ان کے گھرانوں کی اوسط آمدنی میں 400 فیصد کا اضافہ ہوا۔

اگرچہ ان اعداد و شمار سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کمپنی دستکاروں میں کتنی مقبول ہے، تا ہم ماہوگو نے کہا کہ انہیں اس کمپنی کو آگے بڑھانے میں بعض مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انھوں نے جن مشکلات کا ذکر کیا اور ان سے نمٹنے کے لیے سوکو کی ٹیم نے جو حل نکالے، وہ ذیل میں دیئے جا رہے ہیں:
ناقص بنیادی ڈھانچہ ۔ ماہوگو نے کہا، “ہمارے پاس بنیادی سہولتوں کا اپنا نیٹ ورک ہے، جسے ہم اس وقت استعمال میں لاتے ہیں جب یہاں (کینیا میں) ٹرانسپورٹیشن دستیاب نہ ہو، یا دیئے ہوئے پتے نا مکمل ہوں۔”
ناقابلِ اعتبار سہولتیں۔ بجلی منقطع ہونے اور انٹرنیٹ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے مختلف لوگوں کے درمیان رابطہ مشکل ہو جاتا ہے کیوں کہ بہت سے دستکار دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جہاں بجلی بہت کم دستیاب ہے۔ اس کا مداوا کرنے کے لیے، سوکو نے آن لائن ماڈل کے لیے کام کرنے کے لچکدار طریقے اختیار کیے ہیں۔ ماہوگو نے کہا، “ہم نے ان طریقوں کو ایک آف لائن سوشل نیٹ ورک کے ذریعے استعمال کیا ہے۔” ان طریقوں کی بدولت سوکو ایسی حالت میں بھی کام کر سکتا ہے جب بجلی منقطع ہو جائے۔
ٹکنالوجی اختیار کرنے کی سست رفتار۔ ماہوگو نے کہا، “ای کامرس کے ماحول نے ترقی یافتہ ممالک میں جس حد تک ترقی کر لی ہے، وہاں تک پہنچنے میں افریقہ کو ابھی وقت لگے گا۔” سوکو صرف اس لیے موبائل کے ذریعے ادائیگی قبول کرلیتا ہے تا کہ “آن لائن ادائیگیوں کے بارے میں جو عدم اعتماد پایا جاتا ہے، اس پر قابو پایا جا سکے۔” یہ کمپنی تنازعات کو بھی سوشل میڈیا کے ذریعے طے کرتی ہے۔ ان طریقوں کے ذریعے گاہکوں کو مثبت تجربہ حاصل ہوتا ہے۔

سوکو کو امید ہے کہ اس کا پلیٹ فارم دوسرے افریقی ممالک کے دستکاروں تک پھیل جائے گا۔ ماہوگو نے کہا کہ آیا کوئی ملک ای کامرس کے پلیٹ فارم کے لیے قابلِ عمل مارکیٹ ہے یا نہیں، اس کے بعض بنیادی اشاریے ہوتے ہیں۔ ان میں موبائل کے ذریعے پیسہ بھجوانے کی سہولت کی دستیابی، نئی ٹکنالوجی کو قبول کرنے کی شرح، سامان بھیجنے کے انتظامات کا قابلِ اعتماد ہونا، بنیادی سہولتوں کے موجودہ ڈھانچے کا معیار اور کاروباری تنظیم کاروں کے بارے میں حکومت کی پالیسیاں شامل ہیں۔
ماہوگو نے کہا، “انٹرنیٹ کے کنیکشن کی دستیابی سے افریقہ میں کاروبار کرنے کے طریقوں میں انقلاب آ رہا ہے۔” کامیابی حاصل کرنے کے لیے، تنظیم کاروں کو “تبدیلی اور ایجاد و اختراع کے دھارے کے ساتھ چلنا چاہیے، نہ کے اس کے خلاف۔”
جولائی کے اِس مہینے میں کینیا چھٹے سالانہ عالمی کاروباری تنظیم کاری کے سربراہی اجلاس (جی ای ایس) کی میزبانی کرے گا جس میں کاروباری نظامت کار، کاروباری لیڈر، سرپرست اور حکومتوں کے اہلکار شامل ہوں گے۔ اِس سربراہی اجلاس اور امریکی حکومت کے عالمی کاروباری نطامت کاری کے عزم کے بارے میں مزید جاننے کے لیے یہ ویب سائٹ ملاحظہ فرمائیں: GES 2015 website