امریکہ کا اپنے شراکت کاروں اور اتحادیوں کے لیے ایک پیغام ہے: ہواوے کی ٹکنالوجی کو مت استعمال کریں۔
ایسے میں جب ہواوے اپنی فائیو جی وائرلیس ٹکنالوجی کے لیے عالمی منڈیاں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے، امریکہ دنیا کے اُن ممالک کو خبردار کر رہا ہے کہ چینی کمپنی کے آلات سے حساس انٹیلی جنس اور ملکِ دانش کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
مزید برآں، ہواوے کی مصنوعات سے امریکہ کے ساتھ تعاون کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
امریکہ کے محکمہ خارجہ کے سائبر سفارت کار، رابرٹ سٹریئر نے اپریل کے اواخر میں کہا کہ اگر دیگر ممالک (ہواوے جیسی) ناقابل بھروسہ کمپنیوں کو اپنے فائیو جی نیٹ ورک تعمیر کرنے کی اجازت دیں گے تو “ہمیں اپنی اُس اہلیت اور اُن طریقوں کا از سرِنو جائزہ لینا پڑے گا جن کے تحت ہم اِن ممالک کے ساتھ آج معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں اور اُن سے جڑے ہوئے ہیں۔”
معلومات کے تبادلے میں کی جانے والی کسی بھی کمی سے بین الاقوامی سلامتی اور خوشحالی متاثر ہو سکتی ہے۔ امریکہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ایسے ممالک کے ساتھ حساس معلومات کا تبادلہ کرتا ہے جو دہشت گردانہ حملوں اور منی لانڈرنگ جیسے سرحدوں سے ماورا جرائم کو روکنے میں مدد کرتے ہیں۔
امریکہ کے پاس ایسے ممالک کی حکومتوں کے ساتھ حساس معلومات کے تبادلے کا از سرِنو جائزہ لینے کے لیے معقول وجوہات ہیں جہاں ہواوے کے فائیو جی کا بنیادی ڈھانچہ تعمیر کر دیا گیا ہے۔ چین کے 2017ء کے انٹیلی جنس کے قانون کے تحت ہواوے کے لیے ضروری ہے کہ وہ چینی حکومت کے ساتھ خفیہ طور پر معلومات کا تبادلہ کرے۔ ملکِ دانش کی چوری اور سائبر سکیورٹی کے ناقص طریقہائے کاروں سمیت، ہواوے کا ماضی کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔