انڈونیشیا میں کافی کے کاشت کاروں کی مدد

ایبو رحمہ نے 2009 میں جب شمالی سماٹرا، انڈونیشیا میں کافی کے کاشت کاروں کو کوآپریٹو یعنی امداد باہمی کی انجمن کی شکل میں منظم کرنے کی کوشش کی تو اِس میں انہیں کسانوں کو ساتھ ملانے میں کامیابی تو ملی مگر انہیں سرمائے تک رسائی حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ تاہم اِن مشکلات پر امریکہ کی مدد سے چلنے والے ایک پراجیکٹ کی مدد سے قابو پا لیا گیا۔

جب رحمہ کی ‘کیٹیارا کوآپریٹو’ نے ‘روٹ کیپیٹل’ نامی ایک امریکی مالیاتی ادارے سے قرض لیا تو اِس کے بعد کوآپریٹو کے ممبروں کی تعداد 37 سے بڑھکر دو ہزار ہو گئی۔ 2014 میں روٹ کیپیٹل سے ملنے والے اِس قرض کے بعد کیٹیارا کی سالانہ سیل 3.3 ملین ڈالر سے بڑھکر 5.5 ملین ڈالر تک پہنچ گئی۔

رحمہ نے بتایا کہ “عام طور پر قرض لیتے وقت ضمانت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس روٹ کیپیٹل کے ساتھ معاہدے کے علاوہ ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں پڑی اور [معاہدے] کے بعد ہم بغیر کسی دقت کے رقم تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہوگئے۔”

ایک آدمی کافی کی پھیلیوں کی بوریاں لوڈ کر رہا ہے (© Blake Dunlop/Root Capital)
کیٹیارا کوآپریٹو منصفانہ تجارت کے طور پر تصدیق شدہ کافی فروخت کرتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کافی کی پھلیاں اعلیٰ ماحولیاتی اور محنت کشی کے معیارات کے طریقوں پر عمل کرتے ہوئے اگائی اور چنی جاتی ہیں۔ (© Blake Dunlop/Root Capital)

روٹ کیپیٹل کی مالی مدد سے کیٹیارا کے لیے یہ ممکن ہوا کہ وہ  کافی کی کٹائی اور اسے عالمی منڈی میں فروخت کرنے کی عبوری مدت کے دوران  کاشت کاروں کو ادائیگیاں کر سکے۔

آمدنی میں اضافے اور بوقت ضرورت قرض تک رسائی کی بدولت کیٹیارا کوآپریٹو کافی اگانے والے فارموں میں طویل مدتی بہتری لانے کے قابل بھی ہو چکی ہے۔

رحمہ کی زیرقیادت کوآپریٹو کے ‘کوئین کیٹیارا‘ نامی برانڈ کا شمار اِس کے بہترین برانڈوں میں ہوتا ہے اور اسے مکمل طور پر عورتیں اگاتی ہیں۔

دو ہاتھوں میں چیری کی شکل میں کافی کا پھل (© Blake Dunlop/Root Capital)
حالیہ برسوں تک کافی کی خواتین کاشت کاروں کو قرض تک رسائی حاصل کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ (© Blake Dunlop/Root Capital)

پورے انڈونیشیا میں کافی کے کاشت کاروں کو قرض حاصل کرنے میں اسی نوعیت کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ اور موسمیاتی تبدیلیاں اِس صورت حال کو مزید خراب بنا رہی ہیں۔ کافی اگانے کے لیے موزوں زمین کے نصف سے زیادہ حصے کے 2050 تک موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے یا تو ضائع ہو جانے یا پھر تباہ ہو جانے کا خطرہ ہے۔

اِس صورت حال سے نمٹنے کے لیے امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے نے دسمبر 2022 میں روٹ کیپیٹل اور امریکی مشروب ساز کمپنی، کیورگ ڈاکٹر پیپر کے ساتھ مل کر کام کرنے کے ایک نئے تین سالہ منصوبے کا اعلان کیا۔

اِس پراجیکٹ کو ‘ریزلینٹ کافی’ کا نام دیا گیا ہے اور اس کے ذریعے انڈونیشیا میں کافی کے 14,000 کاشت کاروں کی بالخصوص آچے، مشرقی جاوا اور شمالی سماٹرا جیسے دیہی علاقوں میں مدد کی جائے گی۔

اس پراجیکٹ کے تحت مندرجہ ذیل اقدامات اٹھائے جائیں گے:-

  • قرض کی سہولتوں تک کاشت کاروں کی رسائی میں اضافہ کیا جائے گا۔
  • ماحولیاتی نظاموں کی حفاظت کی جائے گی۔
  • کاروباری مہارتوں کو بہتر بنایا جائے گا۔

کافی کے کاروبار میں عورتوں کے لیے مزید مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

ایک آدمی مسکرا رہا ہے جبکہ پس منظر میں کافی کا پودا دکھائی دے رہا ہے (© Blake Dunlop/Root Capital)
انڈونیشیا میں سماٹرا کے جزیرے پر سب سے زیادہ کافی پیدا ہوتی ہے۔ مگر موسمیاتی تبدیلیوں سے کافی کی فصل کو خطرات لاحق ہیں۔ (© Blake Dunlop/Root Capital)

روٹ کیپٹل پہلے ہی مقامی کسانوں سے کافی خریدنے کے لیے ریاست کے زیر انتظام چلنے والے نو اداروں کو 1.3 ملین ڈالر کے قرضے فراہم کر چکا ہے۔ اب تک کافی کی چار کوآپریٹیوز کاروباری تربیت حاصل کر چکی ہیں۔

روٹ کیپیٹل، کیوریگ ڈاکٹر پیپر اور یو ایس ایڈ حکومتی اور نجی شراکت داروں کی حیثیت سے ماضی میں بھی ایک ساتھ مل کر کام کر چکے ہیں۔

یو ایس ایڈ انڈونیشیا کے مشن ڈائریکٹر جیف کوہن نے بتایا کہ ‘ریزیلینٹ کافی’ پراجیکٹ میں توجہ کا ایک مرکز “کاشت کاروں کی ترقی کی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہے۔”