
غالباً آپ نے ہیریٹ ٹبمین کے بارے میں سن رکھا ہو گا۔ یہ امریکی خاتون تھیں جنہوں نے ایک مشہور واقعے میں خفیہ گزرگاہوں، راستوں اور محفوظ ٹھکانوں کے جال یعنی ” زیر زمین ٹرین کے راستوں ” کے ذریعے 70 غلاموں کو آزادی دلا کر کینیڈا پہنچایا تھا۔
ٹبمین سے پہلے آنے والے جوسیا ہینسن زیادہ معروف نہیں ہیں۔ انہوں نے میری لینڈ میں غلامی میں جنم لیا، اپنے مالک سے بھاگ نکلے اور غلام بنائے گئے 118 افراد کو راستوں کے اسی جال کے ذریعے اپنی حفاظت میں کینیڈا پہنچایا۔
اب میری لینڈ کی منٹگمری کاؤنٹی کا پارکوں کا محکمہ غلامی کا خاتمہ کرنے والے اِس امریکی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تمباکو اور گندم کے اُسی فارم پر جوسیا ہینسن میوزیم تعمیر کر رہا ہے جہاں وہ کئی برسوں تک مشقت کرتے رہے۔

ایک اعلٰی مورخ جیمی کُنز کہتے ہیں، ”ہم ان کی جانب دوبارہ توجہ دلانا اور لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ بالائی جنوب میں غلامی اور انسداد غلامی کی تحریک کو سمجھنا کس قدر اہم ہے”۔ یہ عجائب گھر نومبر میں کھلے گا۔
ہینسن کی زندگی کے بارے میں زبانی بیان کی گئی ”جوسیا ہینسن کی زندگی” کے عنوان سے سوانح عمری پہلی مرتبہ 1849 میں شائع ہوئی اور اسی سے تحریک پا کر ہیریٹ بیچر سٹوو نے انکل ٹام کا کیبن” نامی ناول لکھا جس میں اس نام سے ہینسن کا کردار بیان کیا گیا ہے۔ 1852 میں اپنی کتاب شائع ہونے سے پہلے سٹوو، ہینسن سے ملی تھیں۔

انسداد غلامی کے موضوع پر سٹوو کا یہ ناول 19ویں صدی میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا ناول بنا اور اس نے خانہ جنگی بھڑکانے میں کردار ادا کیا۔ بالاآخر غلامی کا خاتمہ ہوا۔
آزادی کا سفر
ہینسن کی زندگی اتار چڑھاؤ سے بھری ہوئی تھی۔
وہ 1789 میں جنوبی میری لینڈ میں پیدا ہوئے اور انہیں ابتدائی عمر میں ہی غلامی کے مظالم سہنے کا تجربہ ہوا۔
کُنز بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے ہینسن کی والدہ پر تشدد کرنے والے ایک نگران پر حملہ کیا۔ سزا کے طور پر ہینسن کے والد کو کوڑے مارے گئے، ان کا کان کاٹ دیا گیا اور پھر انہیں ایک اور شخص کے ہاتھ بیچ دیا گیا۔
ہینسن نے اپنے والد کو دوبارہ نہیں دیکھا۔ ان کا بقیہ خاندان مختلف ہاتھوں میں فروخت ہونے کی وجہ سے بٹ گیا۔ تاہم ہینسن آئزک رائیلی کے میری لینڈ کے فارم پر اپنی والد ہ سے جا ملے۔
ہینسن نے نگران کی حیثیت سے کام کرنے اور رائیلی کی زرعی پیداوار کو واشنگٹن میں فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ آزادی پانے کی خاطر 350 ڈالر جمع کرنے کے لیے میتھوڈسٹ ایپیسکوپل چرچ میں تبلیغ بھی کی۔ رائیلی نے انہیں کسی طرح نیواورلینز میں فروخت کرنے کی کوشش کی۔ اسی لیے ہینسن، ان کی اہلیہ اور دو چھوٹے بچے ریاست کنٹکی سے غلامی سے بھاگ کر 600 میل سے زیادہ فاصلہ پیدل طے کرتے ہوئے آج کے اونٹاریو، کینیڈا میں پہنچ گئے۔
ہینسن نے وہاں 500 آزاد سیاہ فام لوگوں کو بسایا جسے ”ڈان نوآبادی” کا نام دیا گیا۔

وہ غلاموں کو آزادی میں رہنمائی دینے، خدائی احکامات کی تبلیغ اور غلاموں کی آبادی کے لیے رقم جمع کرنے کی غرض سے کئی مرتبہ امریکہ واپس آئے۔ ہینسن نے رقم جمع کرنے اور غلامی کی مخالفت میں کئی مرتبہ برطانیہ کا دورہ بھی کیا۔
ہینسن کی زندگی کے آخری برسوں میں انسداد غلامی کے حامی اور امریکی صدر ردرفورڈ بی ہیز نے وائٹ ہاؤس میں ان کی میزبانی کی۔ ملکہ وکٹوریا نے بکھنگم پیلس میں ان کو عشائیہ دیا۔
انہوں نے 1883 میں 93 برس کی عمر میں وفات پائی۔ کُنز کا کہنا ہے، ”انہوں نے اپنی زندگی میں بے حد شہرت پائی۔ امریکہ، کینیڈا اور انگلینڈ میں بھی لوگ انہیں جانتے تھے۔”