انیسویں صدی میں غلام بنائے گئے ایک آرٹسٹ کے شاہکاروں کی امریکی عجائب گھروں میں نمائش

ڈیوڈ ڈریک کا مٹی سے برتن بنانا اور ان پر شاعری کی کندہ کاری کرنا غلام بنائے گئے ایک شخص کی جانب سے ایک مزاحمتی فعل تھا۔ انہوں نے یہ کام ایک ایسے وقت میں کیا جب اُن کا لکھے ہوئے الفاظ کو پڑھ سکنے کا علم غیرقانونی ہوا کرتا تھا۔

ڈریک انیسویں صدی کی پہلی دہائی میں امریکہ میں غلام کی حیثیت سے پیدا ہوئے۔ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنی زیادہ تر زندگی اجفیلڈ، جنوبی کیرولائنا میں گزاری۔ علمی ماہرین کے تخمینے کے مطابق انہوں نے 40,000 سے زائد مٹی کے برتن بنائے۔

 مٹی سے بنے ایک مرتبان پر کندہ تحریر (Metropolitan Museum of Art)
ڈریک کی ایک تحریر یہ ہے: “یہ مرتبان مسٹر سیگلر کے لیے ہے جو اورنجبرگ میں شراب خانہ چلاتے ہیں/شریف آدمی مسٹر ایڈورڈز جو باضابطہ طور پر/ مسٹر تھوس بیکن کے گھوڑے رکھا کرتے تھے۔” 21 اپریل 1858″ اس برتن کی دوسری طرف یہ تحریر ہے: “جب آپ اس مرتبان کو سور کے گوشت یا بڑے گوشت سے بھریں گے/ ایک ٹکڑا لینے کے لیے سکاٹ بھی وہاں موجود ہو گا/ڈیو” (Metropolitan Museum of Art)

ڈریک کو اپنے ہاتھوں سے بنائے برتنوں پر دستخط کرنے والا غلام بنایا گیا پہلا کُوزہ گر مانا جاتا ہے۔ وہ مٹی کے برتن بنا کر اور اُن پر اپنے شعر کندہ کیا کر تے تھے۔ اس وقت ایسا کرنے کا مطلب یہ تھا کہ ہر برتن بنانے کے ساتھ، ڈریک اپنی جسمانی سلامتی کو خطرے میں ڈال  رہے تھے بلکہ ممکنہ طور پر اپنی  زندگی کو خطرے میں ڈال رہے تھے کیونکہ امریکہ میں غلام بنائے گئے افراد کو پڑھنا لکھنا سیکھنے کی بالعموم ممانعت تھی۔

ڈریک کے مٹی کے بنائے گئے برتنوں کی نیلامی میں ایک سے ایک بڑھکر ریکارڈ بولیاں دی جا رہی ہیں۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آج تک نظرانداز کیے جانے والے غلام بنائے گئے آرٹسٹوں اور دست کاروں کے کاموں پراب زیادہ توجہ دی جانے لگی ہے۔ علمی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ڈریک جیسے آرٹسٹوں کے دستکاری کے کاموں کو اس طرح کی اشیاء بنانے کے لیے درکار مہارتوں کی وجہ سے فنون لطیفہ میں شمار کرنے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اِن اشیاء کو روائتی طور پر یا تو آرٹ میوزیم کے مجموعوں سے باہر رکھا جاتا ہے یا انہیں آرٹ کی بجائے دستکاری کے کاموں میں شمار کیا جاتا ہے۔ علمی ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی آرٹ کے اصولوں کے اندر رہتے ہوئے اِن کی اہمیت اور مقام کے بارے میں از سرنو غور کیا جانا چاہیے۔

 ایک عجائب گھر میں آرٹ کے فن پارے یعنی دیوار پر لگی مصوروں کی بنائی ہوئی تصاویر، مٹی کے برتن اور مجسمہ۔ (Fine Arts Museums of San Francisco)
ڈریک کے بنائے ہوئے مٹی کے برتن سان فرانسسکو کی فائن آرٹس کے عجائب گھروں کی ایک گیلری میں نمایاں طور پر نظر آ رہے ہیں۔ (Fine Arts Museums of San Francisco)

سان فرانسسکو کے فائن آرٹس میوزیمز کے ایک منتظم، ٹموتھی برگرڈ نے دی نیویارک ٹائمز کو بتایا، “اگر آپ ان چیزوں پر دھیان نہیں دیں گے تو آپ کبھی بھی خواتین آرٹسٹوں، غیر سفید فام یا غلام بنائے گئے آرٹسٹوں کی تاریخ کو مناسب طور پر جان نہیں پائیں گے کیونکہ آپ کو یہ دیکھنا ہوگا کہ انہیں کیا ‘بنانے کی اجازت’ تھی۔” برگرڈ نے کہا کہ وہ خانہ جنگی کے دور کے دوسرے آرٹ کے ساتھ ڈریک کے کام کو نمایاں طور پر نمائش کے لیے رکھیں گے تاکہ علاماتی طور پر غلامی کے نظام کے مسائل کو مرکزی حیثیت حاصل ہو جنہیں عجائب گھروں نے تاریخی اعتبار سے  کم ترین اور غیر اہم سطحوں پر رکھا ہوا ہے۔”

برگرڈ نے سوال کیا، “جن لوگوں کو غلام بنایا گیا تھا انہوں نے کتنی عمارتیں، فرنیچر کی کتنی اشیاء اور مٹی کے کتنے برتن بنائے؟ غالبا لاکھوں مگر کسی نے اُن کے ناموں کو دستاویزی شکل نہیں دی۔”