بہت سے ملکوں میں مذہبی آزادی پھل پھول رہی ہے اور لوگ اپنے مذہب یا عقائد پر آزادی سے عمل کر سکتے ہیں۔
لیکن یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ دنیا کے 200 ملکوں میں سے ایک چوتھائی ایسے ہیں جہاں ایسے قوانین موجود ہیں جن کے تحت لوگوں کو توہینِ مذہب کے جرم میں قید میں ڈال دیا جاتا ہے یا موت کی سزا دے دی جاتی ہے۔ توہینِ مذہب سے مراد ہے: کسی ایسے فعل یا قول کا مرتکب ہونا جس سے خدا کی، کسی مذہبی شے یا علامت کی، رسم و رواج یا عقائد کی بے حرمتی ہو۔
ذرا غور کیجیے:
- افغانستان میں ایک ٹیچر کی اسسٹنٹ کو کابل میں ایک درگاہ کے باہر، ایک ہجوم نے مار مار کر ہلاک کر دیا۔ ان پر قرآن شریف کو جلانے کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔
- بھارت میں، ایک گاؤں کے 500 ہندوؤں نے عیسائیوں کی ایک بستی پر اس وقت حملہ کر دیا جب اس کے مکینوں نے اپنا عیسائی مذہب ترک کرنے سے انکار کر دیا۔ ہندوؤں نے انہیں گاؤں سے بے دخل کرنے کی دھمکی دی۔
- انڈونیشیا میں، ایک عدالت نے ایک چھوٹے سے مذہبی گروہ کو، اکثریتی مذہب، اسلام کی تعلیمات کے خلاف تبلیغ کی پاداش میں قید کی سزا دی۔
ان واقعات میں جو ایک دوسرے سے ہزاروں میل کی دوری پر رونما ہوئے، ایک چیز مشترک ہےٖ: یعنی توہینِ مذہب کے الزامات جو قید یا موت کی سزا پر منتج ہوتے ہیں۔ اسی طرح الحاد — اپنے مذہبی یا سیاسی عقیدے کو ترک کردینے یا اس سے منکر ہو جانے کے نتیجے مییں بھی —— سخت سزا مل سکتی ہے۔
سال 2015 کی بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ میں ان طریقوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کے ذریعے دنیا کے 24 فیصد ملکوں میں مذہبی آزادی کو کچلنے کے لیے توہینِ مذہب کے قوانین کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگرچہ بقیہ 76 فیصد ملکوں میں ایسے بہت سے ملک شامل ہیں جن میں مذہبی آزادی پھل پھول رہی ہے، تاہم دنیا کے لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں اپنے مذہب پر اس انداز سے عمل کرنے کےنتیجے میں جو اکثریت کے مذہب سے متصادم ہو، اُنہیں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بین الاقوامی مذہبی آزادی کے لیے محکمۂ خارجہ کے خصوصی سفیر، ڈیوڈ سیپراسٹائن نے کہا، ” درحقیقت ہم ایسے ملکوں پر جن میں توہینِ مذہب کے قوانین موجود ہیں، زور دے رہے ہیں کہ وہ ایسا رجحان پیدا کریں کہ یہ قوانین ختم ہو جائیں۔” گو کہ اسے نافذ تو نہیں کیا جاتا تھا مگر پھر بھی آئس لینڈ نے گذشتہ سال توہینِ مذہب کے ایک قدیم قانون کو منسوخ کردیا۔ 2008 میں برطانیہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔
ایسے ملکوں میں جہاں توہینِ مذہب کے قوانین پر عمل درآمد کیا جاتا ہے، توہینِ مذہب کے الزام میں ملزم کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ملزم کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی درہم برہم ہوجاتی ہے۔ سیپر اسٹائن اس کی مثال دیتے ہوئےکہتے ہیں: “اگر کسی کا کسی کے ساتھ کوئی کاروباری تنازعہ ہوتا ہے اور وہ دوسرے فریق پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کر دیتا ہے تو اس کے نتیجے میں [ملزم] فریق کو سزا ضرور ملتی ہے، چاہے اس سزا کی شکل قانونی ہو یا زندگی کا درہم برہم ہونا اور اس خطرے کی شکل میں ہونا جو اس قسم کے الزامات لگائے جاںے کی وجہ سے پیدا ہو جاتا ہے۔”
It's time to abolish blasphemy laws that infringe on #religiousfreedom and #humanrights. Read my @StateDept blog: https://t.co/1ZM8xjwrqN
— Ambassador Sam Brownback (@IRF_Ambassador) August 24, 2016
اکثر توہینِ مذہب کے الزامات کا نتیجہ ہجوم کے تشدد کی شکل میں نکلتا ہے، جیسا کہ افغانستان میں اس عورت کے ساتھ ہوا۔ اس معاملے میں، افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس قتل کی فوری طور پر مذمت کی اور حملے میں جو لوگ شامل تھے ان پر مقدمے چلائے گئے اور انہیں سزائیں دی گئیں۔ سیپراسٹائن نے کہا کہ “سزا سے مبرا ہونے کےماحول کو ختم کرنے، اور لوگوں میں اس احساس کو ختم کرنے کے لیے کہ وہ یہ سب کچھ کر سکتے ہیں اور انہیں کبھی سزا نہیں دی جائے گی”، اس قسم کی فوری اور مضبوط کارروائی کرنا ضروری ہے۔
اس رپورٹ کے ساتھ دیےگئے ریمارکس میں، سیپر اسٹائن نے بعض امید افزا واقعات کی مثالیں بھی دیں ہیں۔ ان میں ایک مثال لاہور، پاکستان کی ہے جہاں مسلمان لیڈر ایک ہجوم اور اُن پاکستانی عیسائیوں کے درمیان کھڑے ہوگئے جن پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ اس قسم کی مثالوں سے اور ان مذہبی شخصیتوں کے عزمِ راسخ سے جن سے وہ ملے ہیں، ان کے دل میں امید کی کرن روشن ہوئی ہے۔
سیپر اسٹائن نے بتایا، “میں 25 ملکوں میں گیا ہوں، اور ان میں سے بہت سے ملکوں میں مذہبی آزادی پر کڑی پابندیاں عائد ہیں۔ اس کے باوجود گرجا گھر، پگوڈے، مسجدیں لوگوں اور نوجوان گھرانوں سے بھری ہوتی ہیں۔ لوگوں کا یہ عزم کہ وہ اپنی زندگیاں اپنے مذہبی عقائد کے مطابق گذاریں گے، چاہے انہیں امتیازی سلوک یا ظلم و زیادتی کے خطرات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے، عزم و حوصلے کی روشن مثال ہے۔”