اقتدار کی منتقلی کی خوشگوار ابتدا کے طور پر صدر اوباما اور نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان 10 نومبر کو وائٹ ہاؤس میں ایک ملاقات ہوئی۔
اوباما نے 90 منٹ کی اس ملاقات کو “شاندار” قرار دیا۔ ان کے جانشین نے کہا کہ وہ سبکدوش ہونے والے صدر کے “مشوروں” کے منتظر ہیں۔
اوباما نے ٹرمپ سے کہا، “اب ہم وہ سب کچھ کریں گے جو آپ کو کامیاب بنانے میں مدد کے لیےکر سکتے ہیں کیوں کہ اگر آپ کامیاب ہوتے ہیں، تو ملک کامیاب ہوگا۔”
ٹرمپ نے کہا کہ یہ دونوں افراد جو برسوں سے ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرتے رہے ہیں، پہلی بار ایک دوسرے سے ملے ہیں۔ نو منتخب ری پبلیکن صدر نے کہا کہ وہ “مستقبل میں صلاح و مشوروں سمیت، صدر کے ساتھ رابطے کے متمنی ہیں۔”
یہ ملاقات ملک کے 45 ویں صدر کو اقتدار کی منتقلی کے مرحلے کی علامتی ابتدا تھی۔
بعد میں ٹرمپ کانگریس کے لیڈروں سے اگلے سال کے قانون سازی کے ری یبلیکن پارٹی کے ایجنڈے پر بات چیت کے لیے کیپیٹل ہِل جائیں گے۔
ٹرمپ اپنے ذاتی جیٹ طیارے کے ذریعے نیویارک سے واشنگٹن آئے۔ یوں انھوں نے وائٹ ہاؤس میں اپنی تاریخی آمد کو ریکارڈ کرنے کے لیے، اپنے گاڑیوں کے قافلے یا اپنے طیارے میں صحافیوں کو نہ شامل کر کے پروٹوکول سے انحراف کیا۔
خاتونِ اول مشیل اوباما نجی طور پر وائٹ ہاؤس کی رہائش گاہ میں ٹرمپ کی اہلیہ، مِلانیا سے ملیں۔ نائب صدر بائیڈن، نو منتخب نائب صدر مائیک پینس سے بعد ازاں جمعرات کو ملاقات کرنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
نومنتخب صدر کی حیثیت سے، ٹرمپ کو روزانہ کی وہی انٹیلی جنس بریفنگ حاصل کرنے کا اختیار ہے جو صدر اوباما کو ملتی ہے — اس بریفنگ کا تعلق امریکہ کی خفیہ کارروائیوں کے بارے میں اطلاعات، عالمی واقعات کے بارے میں اطلاعات کا خلاصہ، اور امریکہ کی 17 انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اکٹھے کیے گئے ڈیٹا سے ہوتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے کہا کہ وائٹ ہاؤس متعدد ایجنسیوں کے ساتھ مل کر دو مشقوں کا اہتمام کرے گا تا کہ ٹرمپ کی ٹیم کو یہ سیکھنے میں مدد ملے کہ اندرون ملک رونما ہونے والے بڑے بڑے واقعات کی صورت میں کیا کارروائی کرنا ہوتی ہے۔