ہر سائنسدان کا یہ خواب ہوتا ہے کہ اس کے پاس سویڈن سے صبح ہونے سے پہلے ایک فون آئے جس میں یہ خبر دی جائے کہ اس نے نوبیل انعام جیت لیا ہے۔
ان کی خوشیوں میں اُن کے گھر کے افراد، دوست احباب، رفقائے کار اور — ایک خاص انداز سے — ان کے طالب علم بھی شریک ہوتے ہیں۔
طالب علم بڑے فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں — اور ملازمت کے لیے اپنے سوانحی خاکوں میں لکھ سکتے ہیں — کہ وہ ایک نوبیل انعام یافتہ استاد کے شاگرد ہیں۔ پرنسٹن یونیورسٹی کے گریجویٹ طالب علم جوشین نے حال ہی میں ننشون، چین میں اپنے والدین کو بتایا کہ اس کے ایڈوائزر، ڈنکن ہولڈین کو فزکس کا نوبیل انعام ملا ہے۔
ڈاکٹریٹ کے یہ 27 سالہ طالب علم بتاتا ہے، “ان لوگوں کو مجھ پر بڑا فخر ہے۔ انھوں نے اس خبر کو چین میں سوشل نیٹ ورک، WeChat پر پوسٹ کر دیا ہے، اور ان کے دوستوں نے اس پوسٹ کو دوسروں کے ساتھ شیئر کرنا شروع کر دیا ہے۔ ان لوگوں کو کچھ ایسا محسوس ہونے لگا ہے جیسے نوبیل انعام جیتنے والے کے ساتھ ان کا اپنا بھی ایک تعلق قائم ہو گیا ہے۔”
ہولڈین ان چھ نوبیل انعام یافتہ لوگوں میں شامل ہیں — جن میں سے پانچ کا تعلق برطانیہ اور ایک کا فن لینڈ سے ہے— جو کئی عشروں سے امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ہیں۔ نامور پروفیسرعموماً تحقیقی کام کرتے ہیں جن کی وجہ سے انہیں اعزازات سے نوازا جات ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ ایک یا دو کلاسوں کو پڑھاتے بھی ہیں۔
اس سال جن لوگوں کو نوبیل انعامات ملے ہیں، سائنسی حلقوں میں وہ نوبیل پرائز کمیٹی کی طلوعِ صبح کی فون کالیں آنے سے بہت عرصہ پہلے ہی مشہور ہو چکے تھے۔
2015 میں نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں آخری سال کی 22 سالہ طالبہ، نِکول مارٹینیز جس کلاس میں داخل ہوئیں وہ سر جیمز فریزر سٹوڈرڈ کی گریجویٹ سطح کی نامیاتی کیمسٹری کی اعلٰی کلاس تھی۔ مارٹینیز جو اب گریجویٹ سکول میں ہیں، بتاتی ہیں، “یہ میری بڑی خوش قسمتی تھی۔ میں یہ تو جانتی تھی کہ وہ مولیکیولر مشینوں کے اپنے تحقیقی شعبے میں بڑے کامیاب ہیں، لیکن مجھے ان کی حقیقی عظمت کا صحیح اندازہ نہیں تھا۔”
رواں سیمیسٹر میں، کیمسٹری میں نوبیل انعام حاصل کرنے والے یہ سائنسدان ہفتے میں دو بار لیکچر دیتے ہیں، اور بدھ کے روز ایک 90 منٹ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہیں تا کہ طالب علموں کے ہوم ورک کے مسائل میں ان کی مدد کرسکیں۔ یہ سب اس تجربے کے مطابق ہے جو مارٹینیز کو اُن کے طالب علم کی حیثیت سے حاصل ہوا تھا۔ وہ کہتی ہیں، “ان تک رسائی بہت آسان تھی۔ ان کے دروازے سب کے لیے کھلے تھے۔ آپ کسی بھی وقت ان سے مل سکتے تھے۔”
پرنسٹن کے شین کو ہمیشہ اس بات پر خوشگوارحیرت ہوتی ہے کہ ہولڈین بڑی آسانی سے تختہ سیاہ پر ہر مسئلہ حل کر لیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ ایسے پروفیسر ہیں جو “کسی قسم کے نوٹس دیکھے بغیر پیچیدہ حساب کتاب والا بہت سا کام کر ڈالتے ہیں۔”
4 اکتوبر کو سویڈین سے فون کرنے والے شخص کی جانب سے جگائے جانے کے چند گھنٹے بعد ہالڈین نے اپنی منگل کی صبح کی عام کلاس لی جس کا موضوع ہوتا ہے: برقی مقناطیسیت: بنیادی اصول اور مسائل حل کرنا۔” تمام طالب علموں نے احتراماً کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا۔

ہارورڈ یونیورسٹی کے اولیور ہارٹ جو اس سال معاشیات کا نوبیل انعام جیتنے والوں میں شریک ہیں، ماضی میں ڈیوڈ لائبسن کو پڑھا چکے ہیں، جو آج کل ہارورڈ یونیورسٹی کے معاشیات کے شعبے کے چیئرمین ہیں۔ لائبسن کہتے ہیں، “ایک طالب علم کی حیثیت سے، مجھے ان سے محبت ہو گئی۔ ان کی طنز و مزاح کی حس لاجواب تھی، وہ ہمیں معاشیات کے انتہائی اہم اور عمیق تصورات کی تعلیم دیتے وقت ہمیشہ آںکھوں سے اشارے کرتے تھے۔”
براؤن یونیورسٹی کے جے مائیکل کوسٹر لِٹز جو بعض دوسرے سائنسدانوں کے ساتھ مل کر فزکس کا نوبیل انعام جیتنے میں شریک ہیں، اس سیمیسٹر میں رضاکارانہ چھٹی پر ہیں اور فن لینڈ میں پڑھا رہے ہیں۔ لیکن ریاست رہوڈ آئلینڈ کے شہر پراویڈنس میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وڈیوکانفرنس کے ذریعے بات چیت کرتے ہوئے، انھوں نے اپنے طالب علموں پر زور دیا کہ وہ ماہرینِ طبیعیات بنیں۔
وہ اتنا پیسہ تو نہیں کماتے جتنا وال سٹریٹ میں حصص کا کاروبار کرنے والا کماتے ہیں، لیکن انھوں نے کہا کہ یہ بڑا پُر لطف کام ہے اور “بہت سے ایسے سوال باقی ہیں جو کسی نوجوان، دیوانے اور ہوشیار فرد کو حل کرنے ہیں۔” جوش و جذبہ ہی وہ چیز ہے جس کی وجہ سے اتنے بہت سے نوبیل انعام یافتہ افراد امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کے لیے اتنے اہم ہیں۔
کیا آپ امریکہ میں فزکس — یا کوئی اور مضمون — پڑھنا چاہتے ہیں؟ امریکی کالجوں میں زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کیجیے اور اپنی تعلیم کی منصوبہ بندی کے لیے ایجوکیشن یوایس اے ملاحظہ فرمائیے۔