اولمپک مقابلوں میں فتوحات کے بعد، غوطہ زن گریگ لوگینس کا دوسروں کے لیے ایک چیمپیئن کا کردار

امریکہ کے عظیم غوطہ زن، گریگ  لوگینس 1984 اور1988 میں سپرنگ بورڈ اور پلیٹ فارم کے مقابلوں میں سونے کے تمغے جیتنے کے لگ بھگ 30 سال بعد اولمپکس میں دوبارہ جارہے ہیں۔

56 سالہ لوگینس، امریکہ کی غوطہ زن ٹیم کے ایک سرکاری رہبر کی حیثیت سے  ریو جارہے ہیں۔ غیر سرکاری طور پر، وہ دوسرے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے رہیں گے۔

1988ء میں سیئول، جنوبی کوریا کی اولمپک کھیلوں کے دوران لگنے والی اُس چوٹ  کے باوجود جس پر لوگوں نے اپنے دل تھام لیے تھے،  لوگینس نے سونے کا تمغہ جیتا۔ آج وہ نوجوان غوطہ زنوں کے لیے اولمپکس کے دباؤ کوایک مثبت سوچ میں بدل دینا چاہتے ہیں۔ سیئول کے مقابلوں میں، چھلانگ کے دوران اُلٹی قلابازی کے ساتھ غوطہ لگاتے ہوئے  گینس کا سر سپرنگ بورڈ سے ٹکرا گیا تھا۔ اس کے تھوڑی ہی دیر بعد  وہ واپس بورڈ پر آئے اور انہوں نے الٹی قلابازی کے ساتھ کامیابی سے غوطہ لگایا۔ انہوں نے کھیل میں سب سے زیادہ سکور حاصل کر کے فتح حاصل کی۔

لوگینس نے کہا، ’’مجھے اس پر بڑا فخر ہے۔‘‘ انہوں نے اس واقعے کے بعد، سونے کا اپنا تیسرا اور چوتھا تمغہ جیتا۔

At left, three men by pool; on right, man diving into pool (© AP Images)
بائیں جانب: لوگینس 1988 کے اولمپک کھیلوں میں سپرنگ بورڈ سے سر ٹکرانے کے بعد۔ دائیں جانب: اگلے دن سونے کا تمغہ جیتنے والے غوطے کے لیے قلابازی لگاتے وقت لوگینس کے سر پر آنے والے زخم پر لگی ہوئی پٹی دیکھی جا سکتی ہے۔(© AP Images)

ایک بات جس کا بہت سے لوگوں کو علم نہیں، وہ یہ ہے کہ اولمپک مقابلوں سے چھ ماہ قبل لوگینس کو پتہ چلا کہ وہ ایچ آئی وی میں مبتلا ہیں۔ 1980 کے عشرے میں بیشتر لوگ اس مرض کی تشخیص کو موت کا پروانہ تصور کرتے تھے۔ وہ اس وقت 28 برس کے تھے  اور انہیں اپنی عمر کے 30 سال  پورے کرنے کی توقع بھی نہیں تھی۔

اس بیماری  سے وابستہ بدنامی کے داغ کی وجہ سے، لوگینس 1995 تک یہ محسوس کرتے رہے کہ وہ ایک ہم جنس پرست مرد اور ایچ آئی وی میں مبتلا شخص کی حیثیت سے اپنے حالات پوری طرح  آشکار نہیں کرسکتے۔ لوگینس کہتے ہیں، ’’جب آپ ایتھلیٹوں کے ساتھ جنسی شناخت کی بات کریں، تو وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ میرے خیال میں بہت سے ایتھلیٹوں کی توجہ کھیلوں پر اتنی زیادہ مرکوز ہوتی ہے — جیسا کہ میری تھی — کہ وہ اس قسم کے مسائل پر  دھیان نہیں دیتے۔‘‘

Greg Louganis in mid-dive (© AP Images)
لوگینس 1986 میں ” یو ایس ڈائیونگ ان ڈور چیمپئین شپ” کے دوران، ایک کامیاب غوطہ لگاتے ہوئے۔ (© AP Images)

دنیا بھر میں تقریباً 4 کروڑ لوگ   ایچ آئی وی/ایڈز میں مبتلا ہیں۔ اُنہیں لوگینس کی طرح اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے روزانہ مختلف قسم کی دوائیں استعمال کرنا پڑتی ہیں۔ اگرچہ 1980 کے عشرے کے مقابلے میں آج اس مرض کے علاج میں بہتری آئی ہے، تاہم بہتر متبادلات کی دریافت کے لیے تحقیق جاری ہے۔

انسانی حقوق کی مہم سے وابستہ لوگینس آج ایچ آئی وی میں مبتلا لوگوں کے حقوق کے  پر زور حامی بن چکے ہیں۔  بدلتے ہوئے  رویّوں کی ایک علامت کے طور پر وہ ایل جی بی ٹی کیو آئی  لوگوں کے 2012ء  میں پہلی بار منعقد ہونے والے کھیلوں کے ایک میلے میں شرکت کے لیے اپنے شوہر کے ہمراہ کٹھمنڈو، نیپال گئے۔

اگلی نسل کے غوطہ زنوں کی رہنمائی کرنا

کیلی فورنیا میں ریٹائر زندگی گزارنے والے لوگینس کو 2012 کے اولمپک کھیلوں میں امریکی غوطہ زن ٹیم کی رہنمائی کرنے پر رضا مند کیا گیا تھا۔ اور آج وہ  ریو میں دوبارہ اپنا یہی کردار ادا کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔

Greg Louganis sitting on pool diving board (© AP Images)
چار مرتبہ کے اولمپک چیمپیئن لوگینس، آج کل غوطہ زنی کے کوچ اور حوصلہ بڑھانے والے مقرر ہیں۔(© AP Images)

اولمپک مقابلوں کا شمار جذباتی واقعات میں ہوتا ہے۔ یہ مقابلے انتہائی مشاق ایتھلیٹوں کے لیے بھی مشکل ہوسکتے ہیں۔ لوگینس کہتے ہیں، ’’ اس میدان میں اترتے وقت آپ توانائی کو محسوس کرسکتے ہیں۔ اگر آپ اس توانائی کی توجیح دباؤ کے طور پر کریں توآپ کے کمزور پڑ جانے کے بہت زیادہ امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس کی توجیح حوصلہ افزائی کے طور پر کریں، تو یہ [کامیابی] کی کنجی ثابت ہوتی ہے۔‘‘

لوگینس کا کہنا ہے کہ ہمت اور حوصلہ کسی غیر متوقع ذریعے سے بھی حاصل ہوسکتا ہے، حتیٰ کہ اس شخص سے بھی جسے آپ اپنا سخت ترین حریف تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’وہ آپ کو آپ کی بہترین حالت میں ہرانا چاہتے ہیں، اس لیے کہ آپ انہیں ان کی بہترین حالت میں شکست دینا چاہتے ہیں۔ درحقیقت، ہر ایک آپ کی پہنچ میں ہے۔‘‘

آپ 7 سے 20 اگست تک ٹوئیٹر @greglouganis پر، ریو میں گریگ لوگینس اور اپنی پسندیدہ غوطہ زن ٹیموں کو فالو کر سکتے ہیں ۔ 

2016 Summer Olympics logo | ShareAmerica