اولمپک مقابلے کھلاڑیوں کے کمالات کے خیرہ کن کارناموں، پرجوش شان و شوکت اور سونے کے تمغے پیش کیے جانے کے موقع پر کسی ملک کے قومی ترانے کے بجائے جانے سے کہیں آگے کی بات ہیں۔ یہ عالمی امن کا ایک طاقت ور  پیغام بھی ہوتے ہیں۔

اس روایت کا آغاز 776 قبل مسیح میں ہونے والے کھیلوں سے ہوا تھا جب یونان کی تین حریف شہری ریاستوں کے بادشاہوں نے عارضی صلح کی تاکہ کھلاڑی اور تماشائی اپنے گھروں سے کھیلوں کے مقام اولمپیا تک، بحفاظت آ جا سکیں۔

انہوں نے اسے ‘ایکیچیریا’ کا نام دیا جس کا مطلب ہاتھ تھامنا یا سادہ الفاظ میں ‘عارضی صلح’ ہے۔ رتھوں کی دوڑ، کشتی اور انسانی دوڑ کے ہر چار سال بعد ہونے والے اِن مقابلوں کے دوران اولمپک جنگ بندیوں کی یہ روایت قریباً 12 صدیوں تک جاری رہی جب 393 عیسوی میں ازمِنہ قدیم کے آخری مقابلے منعقد ہوئے تھے۔

Group of children near a cauldron and a large poster (© AP Images)
اولمپک اور پیرالمپک کھیلوں میں حصہ لینے والے لیلے ہامر، ناروے میں ہونے والے 1994 کے سرمائی کھیلوں سے امن کی ایک شمع سے بوسنیا کے دارالحکومت سراییوو کے سکندریہ پل پر ایک آتشدان کو روشن کر رہے ہیں۔ (© AP Images)

 

جدید اولمپکس 1896 میں بحال ہوئے۔ قریباً 100 برس بعد 1992 میں سپین میں بارسلونا اولمپکس اور 1994 میں ناروے میں ہونے والے  لیلے ہامر کے سرمائی کھیلوں کے منتظمین نے اولمپک کے موقع پر عارضی صلح کی روایت اُس وقت بحال کی جب بلقان کے ممالک جنگ میں الجھے ہوئے تھے۔

Artwork depicting a dove and the Olympic rings (© IOC)
اولمپک کے موقع پو ہونے والی عارضی صلح کی علامت۔ (© IOC)

انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے باقاعدگی سے متحارب ممالک کے درمیان صلح و آشتی کے مطالبات شروع کیے۔ بہت جلد اقوام متحدہ کا ادارہ بھی اس میں شامل ہو گیا اور اب جنرل اسمبلی ہر دوسال بعد اولمپک کھیلوں سے قبل عارضی صلح کی قراردادیں منظور کرتی ہے۔

1953 سے نافذ ایک نازک عارضی جنگ بندی کے باوجود تکنیکی طور پر شمالی اور جنوبی کوریا ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں ہیں۔ تاہم دونوں ممالک کے کھلاڑیوں نے 2000، 2004 اور 2006 کے کھیلوں کی افتتاحی تقریبات میں جب ایک ہی جھنڈے تلے مارچ کیا تو اسے عارضی صلح کے جذبے کے تحت خیرسگالی کی ایک علامت کے طور پر دیکھا گیا۔ سفید رنگ کا یہ جھنڈا اتحاد کا جھنڈا  ہے جس کے درمیان غیرمنقسم  کوریا کے نیلے رنگ کے نقشے کا خاکہ بنا ہوا ہے۔

اب پیانگ یانگ حکومت کی جانب سے جوہری خطرات کے سبب جزیرہ نما میں سنگین تناؤ کے وقت شمالی اور جنوبی کوریا کے کھلاڑیوں نے اکٹھے مارچ کرنے اور پہلی مرتبہ خواتین کی مشترکہ ہاکی ٹیم میدان میں اتارنے کا پروگرام بنایا ہے۔

انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کے صدر تھامس باخ نے نومبر میں اقوام متحدہ کی جانب سے پیانگ چانگ سرمائی کھیلوں سے قبل اولمپک جنگ بندی کی قرارداد کی منظوری کے موقع پر کہا، “اولمپک کھیل امید اور امن کی علامت ہیں۔ اولمپک میں حصہ لینے والے کھلاڑی  پوری دنیا کو دکھاتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں ایک چھت تلے امن سے رہتے ہوئے ایک دوسرے سے مقابلہ کرنا ممکن ہے۔”