ہر دن لوگ اپنے دوستوں کو ٹیکسٹ کرتے ہیں، کی بورڈ استعمال کرتے ہیں یا ریکارڈ کی گئیں کتابوں کی آڈیوز سنتے ہیں۔
ہم اِن میں سے کوئی بھی کام نہ کر سکتے اگر معذوریوں کے حامل افراد کے استعمال کے لیے چیزوں پر تحقیق نہ کی گئی ہوتی اور یہ چیزیں نہ بنائی گئی ہوتیں۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر کے 1.3 ارب معذور افراد اختراعات کو مہمیز دینے کی وجہ بنتے ہیں اور بہت سی صورتوں میں انہوں نے خود اختراعات پر پیٹنٹ حاصل کیے ہیں۔ اِن لوگوں کو جب کسی مسئلے کا سامنا ہوتا ہے تو وہ اُس کا کوئی ایسا حل نکالتے ہیں جس سے دوسرے لوگوں کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔
ذیل میں اس کی چند ایک مثالیں دی جا رہی ہیں:-
ٹائپنگ
یہ بات ابھی تک زیربحث ہے کہ ٹائپ رائٹر کا پہلا نمونہ کس نے تیار کیا تھا۔ تاہم اس کے دعویداروں میں سرفہرست نام ایک اطالوی پیلیگرینو توری کا آتا ہے جس نے 1808 میں اپنی نابینا دوست کاؤنٹیس کیرولینا فینتونی دا فیویزانو کے لیے ایک مشین بنائی تھی۔ (کاربن پیپر پر کاؤنٹیس کے ٹائپ کردہ حروف ریگیو ایمیلیا، اٹلی میں سرکاری دستاویز خانے میں موجود ہیں۔)

جب بیسویں صدی میں بہتر شکل کے ٹائپ رائٹر تیار کر لیے گئے تو یہ بصری اور دیگر جسمانی معذوریوں کے حامل افراد کے استعمال کے لیے زیادہ قابل رسا ہو گئے۔ آج تقریباً ہر بندہ کی بورڈ استعمال کرتا ہے۔ کمپیوٹروں اور لیپ ٹاپوں میں اختیار کی جانے والی ٹکنالوجیوں کی ایک لائن لگی ہوئی ہے۔ اس کی ایک مثال بریل کی بورڈ اور آواز کو عبارت میں منتقل کرنے کی کمپیوٹر ٹکنالوجی ہے۔
ٹیکسٹنگ
جب الیگزینڈر گراہم بیل نے 1876 میں ٹیلی فون ایجاد کیا تو اس کا مقصد ان لوگوں کی مدد کرنا بھی تھا جنہیں سننے میں دقت پیش آتی تھی۔ مگر اُن کا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ تاہم تقریباً ایک صدی بعد دانتوں کے ایک ڈاکٹر، جیمز مارسٹرس نے جو خود بچپن میں اپنی قوت سماعت کھو چکے تھے، ایک ایسا آلہ ایجاد کیا جو ٹیلی فون کے ذریعے ٹائپ کی گئی گفتگو کو آگے بھجواتا تھا۔ مارسٹرز کے ٹی ٹی وائی سسٹم نے دسیوں ہزاروں بہرے لوگوں کو سننے والے لوگوں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کرنے کے قابل بنا دیا۔ 1990 کی دہائی میں اس ٹیکنالوجی کی جگہ ٹیکسٹ میسیجنگ (ایس ایم ایس) نے لے لی۔ یہ ٹکنالوجی ان لوگوں کی مدد کے لیے ایجاد کی گئی تھی جو قوت سماعت سے محروم تھے یا جنہیں سننے میں مشکل پیش آتی تھی۔ اب پوری دنیا میں موبائل فون استعمال کرنے والے یہ ٹکنالوجی استعمال کرتے ہیں۔

2001 میں یورپ کی کئی ایک تحقیقی ٹیموں، بہرے لوگوں کی مدد کرنے والی تنظیموں، اور برطانیہ کی کمپنی ‘ووڈافون یو کے’ کے مابین ایک تین سالہ پراجیکٹ کا آغاز ہوا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ جی تھری ٹیکسٹنگ میں نہ صرف بہرے اور کم سننے والے لوگوں کا خیال رکھا جائے بلکہ اسے استعمال کرنا بھی آسان ہو اور یہ ٹکنالوجی ان کی روزمرہ زندگیوں میں زیادہ آسانیاں پیدا کرے۔ اس کے نتیجے میں تیار کی جانے والی ٹکنالوجی کو پوری دنیا میں فائیو جی کے ذریعے باربار کیے جانے والے لامحدود کاموں کے عمل کے ذریعے اربوں لوگ استعمال کرتے ہیں اور اس میں بہرے یا سننے میں مشکل کا سامنا کرنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔
مشروبات پینا
جوس پینے والی مڑی ہوئی نلکیاں یا سٹرا بیمار یا مکمل طور پر حرکت نہ کر سکنے والے افراد کے لیے بنائے گئے تھے تاکہ ان کے لیے کپ یا سیدھا سٹرا اٹھائے بغیر کسی مائع شکل کی چیز کو پینا آسان بنا سکے۔ یہ ڈیزائن 1930 کی دہائی میں جوزف فریڈمین نے تیار کیا اور چند برس بعد اس میں تبدیلیاں کر کے اسے بہتر بنایا۔ 1940 کی دہائی تک امریکہ کے ہسپتالوں میں مریض کاغذ سے بنے اور لچکدار سٹرا بڑی تعداد میں استعمال کیے جانے لگے۔

معذوریوں کے حامل بعض افراد بھی کھانے پینے کی چیزوں کے لیے مڑنے والے سٹرا استعمال کرتے ہیں جبکہ بہت سے دیگر لوگ اسے محض ایک سہولت کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ (امریکہ میں آبی گزرگاہوں میں پلاسٹک کے کچرے سے پیدا ہونے والے مسائل کی وجہ سے کچھ علاقوں میں پلاسٹک سے بنے سٹرا استعمال کرنے پر پابندی لگی ہوئی ہے۔)
سننا
1932 میں نابینا افراد کی امریکی فیڈریشن نے وائنیل پر کتابوں کی آڈیوز بنائیں جنہیں آڈیو بکس کا نام دیا گیا۔ (یاد رہے کہ یہ کام ممکن نہ ہوتا اگر بہت پہلے 1877 میں امریکی موجد تھامس ایڈیسن نے جو بذات خود ایک معذوری کا شکار تھے، فونوگراف نہ بنایا ہوتا۔) ریکارڈ کے دونوں طرف پندرہ پندرہ منٹ کی آڈیو ہوتی تھی۔ شیکسپیئر کے ڈراموں یا امریکی آئین جیسے مقبول عام شاہکاروں یا دستاویزات جیسی کتابوں کے مکمل متن ریکارڈوں کے سیٹوں کی شکل میں ریکارڈ کیے جاتے تھے۔ 1932 میں کانگریس نے ایک قانون منظور کیا جس کے تحت لائبریری آف کانگریس کو آڈیو بکس ریکارڈ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے نتیجے میں آڈیو شکل میں دستیاب کتب کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

آڈیو بکس اپنے پسندید مصنفین کی تحریروں سے لطف ہونے کے لیے آج کل نہ صرف معذوریوں کے حامل افراد میں بلکہ سب میں مقبول ہیں۔ آڈیو پبلشر ایسوسی ایشن کے اندازے کے مطابق نصف سے زائد امریکیوں نے کم از کم ایک آڈیو بک ضروری سنی ہوتی ہے۔
کھانا پکانا

اوکسو کمپنی کا نام کچن میں استعمال ہونے والی اشیا کے حوالے سے ایک عالمی نام ہے۔ سیم فاربر نے اس کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے دیکھا کہ اُن کی بیوی، بیٹسی کو جنہیں جوڑوں کے درد کی تکلیف تھی سبزیاں چھیلنے میں مشکل پیش آتی ہے۔ انہوں نے تمام لوگوں کے لیے کچن میں استعمال کے لیے ایسے آلات بنانے کا فیصلہ کیا جنہیں ہر کوئی، بالخصوص بیٹسی جیسی درد کی دائمی تکلیف کا سامنا کرنے والے افراد آسانی سے استعمال کر سکیں۔
دو دہائیوں کے بعد دنیا بھر میں جسمانی معذوریوں کے حامل اور ان کے بغیر سب لوگ اوکسو کی ‘گڈ گرپس’ کے سلسلے کے تحت تیار کی جانے والی اشیا استعمال کر رہے ہیں۔
فاربر نے 2000 میں کہا کہ “سبزیوں کے چھیلنے والے آلے کو ایک انتہائی اہم چیز سمجھنا ذرا مشکل کام ہے۔ مگر میرا اندازہ تھا کہ یہ ایسا ہی ہے۔”