وبھاس سین ممبئی بھارت کی ایک ملٹی نیشنل انشورنس کمپنی میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ مینجر کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ انہیں اپنا کام بہت اچھا لگتا ہے، لیکن انہیں اس سے بھی جو چیز زیادہ پسند ہے وہ کام کے بعد، ہفتے میں تین بار، اپنی وہیل چیئر میں بیٹھ کر شمشیر زنی کی مشق کرنا ہے۔
سین اُن 15 معذور کھلاڑیوں اور کوچوں میں شامل تھے جنھوں نے حال ہی میں ماہر استادوں کی زیرنگرانی امریکہ کے چوٹی کے ایسے مراکز میں کھیل سیکھنے میں پانچ ہفتے صرف کیے جہاں معذوریوں کے حامل افراد کو اپنے آپ کو کھیلوں کے مطابق ڈھالنا سکھایا جاتا ہے۔ محکمۂ خارجہ کے کھیلوں کی سرپرستی کے عالمی پروگرام کی یہ حالیہ ترین “کلاس” تھی۔
سین 3 برس کے تھے جب وہ پولیو کی بیماری میں مبتلا ہونے کی وجہ سے معذور ہو گئے۔ انھوں نے نوجوانی میں تیراکی کا کھیل اپنایا لیکن ان کے کوچ نے ان کی کوئی خاص ہمت افزائی نہ کی۔ بالغ ہونے کے بعد، ایک کوچ نے جو خود بھی جسمانی طور پر معذور تھے اور اُن کا نچلا دھڑ کام نہیں کرتا تھا، سین کی آگے بڑہنے میں بہت ہمت افزائی کی۔ مقامی اور ریاستی چیمپین شپ مقابلوں میں ان کی کارکردگی اچھی رہی، لیکن انھیں احساس ہوا کہ بین الاقوامی سطح پر تیراک کی حیثیت سے مقابلے کرنے کے لیے ان کی عمر زیادہ ہو چکی تھی۔
وہیل چیئر پر شمشیر زنی کی بات ہی کچھ اور ہے

سین کی عمر 31 برس ہے اور اُنہیں عالمی کھلاڑی کا درجہ حاصل ہے۔ وہ دو بار بھارت کے قومی چیمپین رہ چکے ہیں۔ ان کا ہدف معذوروں کی اولمپک کھیلوں میں شریک ہونا ہے۔ “میرے کچھ ساتھی 52 برس کے ہیں اور اب بھی شمشیر زنی میں حصہ لیتے ہیں۔ میرے پاس تو ابھی بہت وقت پڑا ہے جس کے دوران میں آگے جا سکتا ہوں۔”
سین پہلے ہی ایک مثالی کردار کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہمت افزائی کے موضوع کے ایک بڑے اچھے مقرر ہیں۔ وہ مینٹرنگ [سرپرستانہ] پروگرام میں اپنے وقت کا بڑا موئثر استعمال کر رہے ہیں اور پانچ شہروں میں سکولوں کو اپنے اس منصوبے پر قائل کر رہے ہیں کہ وہ اپنے نصاب میں اس طرح ردوبدل کریں کہ معذوریوں والے طالب علم فزیکل ایجوکیشن [جسمانی تعلیم] کی کلاسوں میں شرکت کر سکیں۔
2012ء سے اب تک [محمہ خارجہ کے] اس پروگرام میں 60 ملکوں کے تقریباً 113 ایتھلیٹوں، کوچوں اور دوسرے ابھرتے ہوئے لیڈروں کی مینٹرنگ کی جا چکی ہے۔ سین کے گروپ میں شامل لوگوں کا تعلق ارجنٹینا، آرمینیا، مصر، ایستونیا، فجی،جارجیا، بھارت، کوسووو، منگولیا، روس، سعودی عرب، سری نام، جنوبی افریقہ، ازبکستان اور وینیزویلا سے تھا۔
ایستونیا کے شہر تالین کی 25 سالہ کیٹ جانیمیگی کی ریڑھ کی ہڈی میں پیدائشی نقص ہے۔ وہ لڑکپن کے زمانے سے تیراکی کے مقابلوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ وہ ایستونیا کی پیرالمپک کمیٹی میں کام کرتی ہیں۔
جانیمیگی نے اپنی مینٹر شپ ریاست الاباما کے شہر، برمنگھم کی لیک شور فاؤنڈیشن میں مکمل کی۔ وہ بتاتی ہیں کہ “میرے ملک میں معذور ایتھلیٹوں کے لیے مواقع آہستہ آہستہ پیدا ہو رہے ہیں۔ میں بڑی خوش قسمت ہوں کہ میری والدہ نے مجھے کھیلوں میں حصہ لینے پر آمادہ کیا۔ ابتدا میں ہی انھوں نے یہ بات سمجھ لی تھی کہ جسمانی طور پر فعال ہونے سے مجھ پر کتنا اچھا اثر پڑسکتا ہے۔ آج میرے رویے میں جو مثبت استقامت آئی ہے، وہ اسی وجہ سے ہے۔”

26 سالہ علی ابو النصر، ‘مصر کے نابینا لوگوں کے فُٹبال’ کے کوچ اور شریک بانی ہیں۔ نابینا لوگ فُٹبال کا کھیل ایک ایسے فٹ بال سے کھیلتے ہیں جس کے اندر گھنٹیاں لگی ہوتی ہیں اور اِن سے آوازیں نکلتی ہیں۔ النصر ایک سپورٹس مینیجمنٹ کمپنی چلاتے ہیں اور فٹبال کے چوٹی کے کلبوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کی نظریں ایسی نمائشی کھیلوں کا بندوبست کرنے پر مرکوز ہیں جن میں پیشہ ور کھلاڑی اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر، النصر کی ٹیموں کے نوعمر کھلاڑیوں کے ساتھ کھیلیں۔

سری نام کے زبدئی زیموئل کی ٹانگ میں بچپن میں سخت چوٹ لگی تھی۔ انھوں نے اس چوٹ پر قابو پایا اور سری نام کی نوجوانوں کی ٹرائی ایتھلیٹ چمپیئن شپ جیتی۔ انھوں نے اپنے ملک کے بعض تیز ترین تیراکوں کو تربیت دی ہے۔
زیموئل کہتے ہیں، “اب میں ایسے لوگوں کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہوں جن کی بصارت میں نقص ہے۔ گول بال (نابینا ایتھلیٹوں کے پیرالمپک میں کھیلے جانے والے ایک کھیل) کے ذریعے لوگوں کو متوجہ کرنے کے بعد، ہم ایتھلیٹوں کی ایک بڑی تعداد اکٹھی کریں گے، لوگوں کو تیراکی اور دوڑنے کی تربیت دینا شروع کریں گے … ہم بائیسکلیں خریدیں گے اور اس طرح ہم ٹرائی ایتھلیٹ تیار کریں گے۔”
زیموئل، جن کی مینٹرنگ امریکہ کے اولمپک کے تربیتی مرکز اور ریاست کولوریڈو کے شہر کولوریڈو سپرنگز میں واقع امریکہ کی نابینا ایتھلیٹوں کی تنظیم میں ہوئی تھی، مزید کہتے ہیں، “میرا خیال تھا کہ میں کوئی بڑا خواب دیکھ رہا ہوں، لیکن مجھے بعد میں پتہ چلا کہ بڑے خواب دیکھنے کا اصل مطلب کیا ہوتا ہے۔”